آئین پاکستان اور گھنٹہ گھر چوک فیصل آباد

‎1962 کے آئین کے بارے میں سابق جج ملک رستم کیانی نے کہا تھا۔۔۔

‎” Constitution of the president, by the president, for the president.

‎غالباً فیض احمد فیض نے 1962 کے آئین کی حقیقت یوں بیان کی تھی ۔

‎”یہ آئین فیصل آباد کے گھنٹہ گھر چوک کی طرح ہے، جہاں سے آٹھوں سڑکیں نکلتی ہیں مگر سب کی سمت ایک ہی ہے ۔۔۔ صدر کی کرسی کی طرف!”

‎1962  سے لے کر بات 1973 پہ آگئی اور ان مادرزاد بدصورت آئینہ گروں نے اپنے چہرے کی بدصورتی آئینے پر ڈال کر لحظہ بہ لمحہ  ترامیم کے صورت میں تراشا ۔

‎جیسے ایک جنرل صاحب نے آئین کو ہوا میں لہراتے ہوئے پھاڑ دیا تھا اور کہا تھا یہ تو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے میں نے پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا کوئی پوچھ سکتا ہے اب ؟

‎اسی طرح پاکستان میں آئینی استحصال کی تاریخ کچھ یوں ہے :

‎1947 میں عبوری آئین نافذ ہوا، جسے گورنر جنرل اور بعد میں فوجی قیادت نے اپنی مرضی کے مطابق پارلیمانی اختیارات کم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

‎1956 کا پہلا مستقل آئین منظور ہوا مگر 1958 میں مارشل لا کے سائے میں معطل ہو گیا، 1962 کا صدارتی آئین صدر ایوب خان نے اپنے اقتدار کو قانونی جواز دینے کے لیے پیش کیا لیکن 1969 میں استعفیٰ کے بعد یہ عملی طور پر مسترد ہوا۔

‎1973 کا آئین  جمہوری اصولوں پر مبنی تھا مگر مختلف ادوار میں مارشل لا، فوجی یا صدارتی مداخلت کے ذریعے اس کی روح سے انحراف کیا گیا، جس میں صدارتی اختیارات کو بڑھایا اور پارلیمنٹ کی آزادی کو محدود کیا گیا، اور بعد میں عوامی دباؤ اور عدلیہ کی حکمت عملی سے کچھ ترامیم واپس بھی کی گئیں ۔

‎اب جو بھی صاحب اختیار رہا اس نے آئین میں ڈنڈی مارنے کی کوشش ۔

‎1973 میں وضع کردہ جمہوری اصول دہائیوں سے امریت کی انکھوں میں بصورتِ خار تھے ۔

‎اسلیئے چھبیسویں آئینی ترمیم میں عدلیہ کے پاؤں باندھ لیئے اور ستائیسویں میں چھری کے نیچے لٹا کر ذبح کیا ۔

‎ستائیسویں آئینی ترمیم کوئی معمولی دستاویز نہیں، یہ دراصل آئینِ پاکستان کی گردن پر رکھا ہوا ایک تیزدھار خنجر ہے۔ اسے "اصلاح” کا نام دیا جا رہا ہے، مگر دراصل یہ اختیار کی بھوک اور اقتدار کی ہوس کا اعلان ہے۔

‎یہ ترمیم عدالتوں کے ڈھانچے کو نیا کرنے کے نام پر ان کی آزادی کی جڑ کاٹنے جا رہی ہے۔ وہ عدلیہ، جو عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ تھی، اب طاقت کے دروازے پر نگران بن کر کھڑی ہوگی ، اجازت مانگتی ہوئی، فیصلے نہیں دیتی ہوئی۔

‎انصاف کا چہرہ اگر دربار کے سامنے جھک جائے، تو قانون محض لفظوں کا کھیل رہ جاتا ہے۔ اور یہی ہو رہا ہے۔

‎پھر آتے ہیں صوبوں پر ۔۔۔

‎اٹھارویں آئینی ترمیم نے برسوں بعد وفاقی توازن کو کچھ سہارا دیا تھا۔ اب ستائیسویں ترمیم اُسی توازن کو توڑنے کا منصوبہ ہے۔

‎مرکز میں بیٹھے چند لوگوں کو صوبوں کے اختیار سے خوف ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ طاقت بٹ جائے گی، تو ان کی کرسی کمزور پڑ جائے گی۔

‎لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ریاست صوبوں کے اعتماد سے محروم ہو جائے، تو تخت مضبوط نہیں رہتا، بس ٹانگیں تھرتھراتی رہتی ہیں۔


‎یہ سب کچھ عوام سے چھپ کر کیا جا رہا ہے۔
‎پارلیمان میں شور نہیں، عوام میں بحث نہیں، بس چند لوگوں کے ہاتھوں آئین کی ہڈی پسلیاں الگ کی جا رہی ہیں۔ جیسے کسی بے حس جسم پر آپریشن ہو رہا ہو … بغیر بیہوشی کے، بغیر اجازت کے۔

‎کہا جاتا ہے کہ یہ ترمیم "اصلاحات” کے لیے ہے۔
‎اگر ہر ظلم کو "اصلاح” کہا جائے، تو آمریت بھی عبادت بن جائے۔

‎اقتدار کی مرکزیت کو "مفادِ عامہ” کہا جا رہا ہے، مگر اصل مقصد صرف یہ ہے کہ کوئی طاقت سوال نہ اٹھا سکے، کوئی ادارہ "نہ” نہ کہہ سکے، کوئی جج ضمیر سے فیصلہ نہ دے سکے۔

‎یہ وہی پرانی بیماری ہے جو ہر چند سال بعد نئے چہرے سے لوٹ آتی ہے  طاقت کا زہر۔

‎یہ ترمیم دراصل جمہوریت کے جسم میں آمریت کا انجکشن ہے۔

‎آئین اگر بار بار حکومتوں کی خواہش کے مطابق بدلا جائے، تو وہ آئین نہیں رہتا، صرف سرکاری نوٹیفکیشن بن جاتا ہے۔

‎اب سوال یہ نہیں کہ یہ ترمیم پاس ہوتی ہے یا نہیں ۔

‎سوال یہ ہے کہ ہم، بطور قوم، کب تک تماشائی بنے رہیں گے؟

‎کب تک ہر آئینی زخم پر تالیاں بجاتے رہیں گے؟
‎کب تک "اصلاح” کے نام پر اقتدار کے ڈاکے برداشت کرتے رہیں گے؟

‎ستائیسویں آئینی ترمیم کوئی قانونی تبدیلی نہیں، یہ ریاستی ضمیر کی آزمائش ہے۔

‎ آئینِ زباں بندی زنداں پہ نہیں لاگو
‎زنجیر سلامت ہے جھنکار سلامت ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے