گفتگو: جنریشن الفا سے — "بچوں کا اقبال” کے حوالے سے چند احساسات

کبھی کبھار وقت ایک خوبصورت دائرہ مکمل کرتا ہے۔ چند روز قبل مجھے اسلام آباد ماڈل کالج فار گرلز F-8/1 میں منعقدہ تقریب "بچوں کا اقبال” میں شرکت کا موقع ملا۔یہ پروگرام علامہ محمد اقبالؒ کے یومِ پیدائش کے موقع پر بچوں کے تخلیقی اظہار اور فکری بیداری کے نام کیا گیا تھا۔

مجھے خوشی ہی نہیں، ایک عجیب سا سکون بھی محسوس ہوا جیسے اپنی جڑوں سے دوبارہ ملاقات ہو گئی ہو۔سامعین میں جنریشن الفا کی روشن آنکھوں والی بچیاں تھیں، جنہیں جنریشن زی اور جنریشن وائے کی محنتی اساتذہ نے رہنمائی دی، اور ان سب کے پیچھے جنریشن ایکس کی باوقار، باحوصلہ پرنسپل پروفیسر آسیہ ملک (آسیہ رفیق) کی قیادت جگمگا رہی تھی ۔

ایک ایسی پرنسپل جو نہ صرف انتظامی لحاظ سے مضبوط ہیں بلکہ ایک سابق ICBian اور ICGian ہونے کے ناتے ادارے کی روح کو بخوبی سمجھتی ہیں۔

اس تقریب میں نظم و ضبط، تخلیق، اور اعتماد کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔

طالبات کی کارکردگی، اساتذہ کی لگن، اور پورے ماحول کی توانائی نے دل کو متاثر کیا۔

اپنے خطاب میں، بطورِ مہمانِ خصوصی، میں نے طالبات کی کارکردگی کو سراہا مگر ساتھ ہی اقبالؒ کا وہ ابدی پیغام بھی یاد دلایا:

"ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا”

ہم نے بات کی اُس "مواقع کی غربت” پر جو آج بھی کئی نوجوانوں کی زندگیوں کو محدود کر دیتی ہے — یہ غربت محض مالی نہیں بلکہ خواب دیکھنے اور خواب پورے کرنے کے مواقع کی کمی ہے۔

پروگرام کے بعد چند اساتذہ نے محبت سے کہا:

"ڈاکٹر صاحبہ، آپ کو اپنے کام اور سفر کے بارے میں زیادہ بولنا چاہیے تھا، ہمارے پاس رول ماڈلز کی کمی ہے۔”

میں مسکرائی اور نرمی سے کہا:

"موازنہ کس سے؟ اور کیوں؟”

میرے لیے "رول ماڈل” کا تصور ہمیشہ قدرے مبہم رہا ہے۔

شاید اب وقت آ گیا ہے کہ جنریشن الفا اپنے معیار خود طے کرے ۔
مقصد، ہمدردی، اور کمال کی اپنی نئی تعریفیں تراشے۔

واپسی پر دل میں ایک عجب اطمینان کا احساس تھا ۔ایک ہلکی سی ناستلجیا، ایک گہری شکرگزاری ۔
کہ میں دوبارہ اپنے ICG کی فضا میں سانس لے پائی،
جہاں خوابوں کو سوچنے، بولنے، اور جینے کی اجازت ملتی تھی۔

چند اشعارِ اقبال جو دل کے قریب ہیں۔

وہ اشعار جو اُس تقریب میں زبان پر نہ آ سکے، مگر دل میں گونجتے رہے ۔

یہ وہ صدا ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے، جو ہر نسل کو سوچنے پر آمادہ کرتی ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

اور اقبالؒ کے فارسی کلام سے — وہی وجدانی کیفیت:

تیز ترک گمزن، منزلِ ما دَر اَوَنِ نیست
(اے تیز رفتار ترک، آہستہ چل — ہماری منزل ابھی آئی نہیں)

یہ ایک گہرا پیغام ہے — آج کی جنریشن الفا کے لیے بھی:
رفتار میں کھو جانا آسان ہے، مگر سمت کو پہچاننا اصل دانائی ہے۔

کامیابی کی تیزی سے زیادہ اہم وہ ٹھہراؤ ہے جو انسان کو اپنی “خودی” کے قریب لے جائے۔

اور پھر وہ اقبالؒ کا ازلی پیغام، جو نسل در نسل روشنی بانٹتا رہا ہے:

"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں”
"ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں”

دل کے ایک گوشے میں یہ احساس گونجتا رہا — کہ اقبالؒ صرف شاعر نہیں، سوچنے کا سلیقہ ہیں۔

اور شاید یہی “بچوں کا اقبال” ہے — جہاں نئی نسل کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کے خواب، ان کی آواز، اور ان کی "خودی” ہم سب کی اُمیدوں کی توسیع ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے