مفتی منیب الرحمن صاحب سے چند سوالات

اہل سنت جو اس ملک کی مجموعی آبادی کا ایک اوسط اندازے کے مطابق ستر فیصد سے زائد طبقہ ہےیعنی اس ملک کی بڑی آبادی یایوں کہہ لیاجائے تو بات زیادہ عام فہم ہو جائے گی کہ اس خطے کے باسیوں کی اکثریت جن نظریات کی حامل ہے وہ اہل سنت کہلاتے ہیں۔

اہل سنت کی اصطلاح جب بھی استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد حنفی بریلوی طبقہ ہی ہوا کرتا ہے۔

میرے نزدیک اہل سنت ایک قدیم اور کافی وسعت کی حامل اصطلاح ہےجو ماتریدیہ اور اشاعرہ کے نظریاتی پیروکاروں پر صادق آتی ہے چونکہ اس وقت ہمارا موضوع اہل سنت کی وضاحت نہیں اور نہ ہی اس کی تاریخ پر نظر دوڑانا ہے۔

بلکہ اس وقت اہل سنت کی جمیع مقتدر شخصیات اور بالخصوص جناب مفتی منیب الرحمن صاحب سے چند سوالات مقصود ہیں مگر اس سے قبل اس بات کی وضاحت بھی از حد ضروری ہے کہ میرا قبلہ مفتی منیب الرحمن صاحب سے انتہائی نیاز مندی کا رشتہ ہے مجھے ان سے سوائے دو چار دفعہ سے زیادہ ملاقات کا شرف حاصل نہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قبلہ مفتی صاحب علم،فہم،بصیرت اور حکمت کے اعتبار سے بھی ایک قد آور شخصیت ہیں جبکہ اختلاف کے باوجود ہمیں ایک دوسرے کے شخصی احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تاکہ باہم ربط برقرار رہ سکے اور مجھے قوی امید ہے کہ قبلہ مفتی صاحب میری ان تحریر کردہ چند سطور کو میرا درد دل سمجھیں گے ناکہ تنقید چونکہ اہل سنت اس وقت بے یار و مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ سرپرستی سے بھی محروم ہیں۔

اگر مفتی صاحب اور اس کلیبر کی دیگر شخصیات مل بیٹھیں اور اہل سنت کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیں تو میری دانست میں وہ دور دوبارہ لوٹ آئے گا جب اس ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت جمعیت علماء پاکستان ہوا کرتی تھی لیکن اس وقت یہ فقط ایک خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور جس کی تعبیر مستقبل قریب میں مجھے کم ازکم دکھائی نہیں دے رہی اس لیے کہ ابھی تک ہم اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے باہر نہیں آ سکے اور یہی ہماری تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہےاور جب تک ہم اہل سنت متحد و یکجا نہیں ہونگے ایسے ہی لٹتے،پٹتے اور کٹتے رہینگے اس لیے کہ مخالفین ہمارے اندرونی خلفشار سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ہمارے درمیان دراڑیں ڈالنے میں مکمل طور پر کامیاب ہو چکے ہیں۔

اہل سنت کی کمزوریوں پر پھر سہی سر دست چند سوالات قبلہ مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کرنے از حد ضروری ہیں تاکہ دل کا بوجھ ہلکا ہو اور عوام اہل سنت کی ترجمانی کا بھی حق اداکیا جا سکے۔

1-مفتی منیب الرحمن صاحب سانحۂ مرید کے کو گزرے تقریباً ایک ماہ اور چند دن ہو چکے ابھی تک ٹ ی ای ل پی کی قیادت کیوں منظر عام پر نہ آ سکی۔

2-سانحۂ مرید کے میں جام شہادت نوش کرنے والوں کی ۔تعداد کے بارے میں کیوں آگاہی نہیں دی جا رہی ہے۔

3- مفتی صاحب آپ کی حکومتی کارندوں اور سی ایم پنجاب کے ساتھ بیٹھک بھی ہوئی جس میں انہوں نے سارا ملبہ مظاہرین پر ڈال کر دامن جھٹک دیا آپ کی کیا مجبوری تھی کہ آپ نے نون لیگ کے ماضی کو ان کے سامنے نہ رکھا جبکہ آپ جانتے ہیں نون لیگ کے ہر دور میں اہل سنت کے معصوموں کا خون بہایا جاتا رہا ہے۔

4-آپ نے حکومت کے ساتھ اپنے مذاکرات کو یہ جوز فراہم کیا تھا کہ آپ نے فقط مساجد و مدارس اہل سنت کو واگزار کرانے کے حوالے گفتگو کی جو کہ نتیجہ خیز ثابت ہوئی مگر تاحال بہت ساری مساجد و مدارس میں فقط نمازیں بحال ہوئیں جبکہ ان کے ائمہ حضرات جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

5-آپ کے نزدیک انسانی جان کی حرمت زیادہ ہے یا مساجد ومدارس کی۔

6- کیا مظاہرین جن کا تعلق ایک مذہبی سیاسی جماعت سے تھا دہشتگرد تھے یا پھر بارڈر پار کسی ملک دشمن عنصر کے ساتھ منسلک تھے جس باعث انہیں وفاق،پنجاب اور دیگر ضلعوں سے لاء انفورسمنٹ ایجنسیز کو بلا کر کچل ڈالا گیا آپ نے اس پر کوئی پریس کانفرنس کیوں نہ کی۔

7- آپ کے جو معاملات وفاقی وزیر داخلہ اور پنجاب حکومت سے طے ہوئے وہ ابھی تک پبلک کیوں نہ ہوئے۔

8 – آپ ایک بہت بڑے دینی بورڈ کے سربراہ ہیں حالیہ وزیر دفاع کے بیان پر آپ نے رد عمل کیوں نہ دیا۔

ویسے تو سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے مگر فی الحال یہی آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں امید واثق ہے آپ اس کو بے ادبی نہیں تصور کریں گے بلکہ ایک سنی کا درد
دل سمجھ کر اس بابت ضرور راہنمائی فرمائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے