آرنلڈ ٹائن بی کہتے ہیں کہ
ثقافت کسی تہذیب کی روح اور اس کی تخلیقی قوت ہے، جو اسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔
البرٹ کامیو نے کہا تھا کہ ؛
ثقافت کی تحقیر کرنے والی ہر شے ، غلامی کی طرف جانے والے راستے کو مختصر کرتی ہے۔
ثقافت کی ترقی اور معیار کے لئے جو بنیادی عناصر درکار ہیں ،اُن میں ایک متعین جغرافیہ جہاں ثقافت پنپ سکے.
اُس مخصوص خطے کی تاریخ جو لوگوں کی امیدوں اور امنگوں کی نمائندگی کرے۔
مذہب یا نظریے کی صورت میں، مثبت اخلاقی اور روحانی اقدار کا مجموعہ جو لوگوں کو ایک سمت اور مقصد کا احساس دلائے۔
ایک زبان جو لوگوں کے درمیان رابطے کا زریعہ ہو۔
ایک قانونی نظام اور سیاسی ڈھانچہ ہو، جو لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے، اُن کو یکسانیت کا احساس دلائے اور پھر اس احساس سے اُن کے اندر اعتماد اور جذبہ حب الوطنی پیدا ہو۔
ایک ضابطہ اخلاق ہو جو تنگ نظری، عدم برداشت، انتشار اور نفرت آمیز رویوں کو روک سکے۔
سائنس ، ادب، فلسفہ اور فنون پر مشتمل ایک نظام تعلیم ہو.
یہ سات عناصر ہوں تو ایک ثقافت ترقی کر سکتی اور وہ بہترین کہلاتی ہے۔
جب پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا ، کشمیر اور گلگلت بلتستان کے رنگ ،خوشبوئیں ، ذائقے اور دھنیں ملتی ہیں تو پاکستانی ثقافت وجود میں آتی ہے ۔ جو پنپتی ہے فنکاروں ،کاریگروں، ہنرمندوں اور تخلیق کاروں کے ہاتھوں سے ۔ کسی ایک کی بھی غیر موجودگی ، پاکستان کی ثقافت کو مُرجھا دیتی ہے ۔
پاکستان کی اسی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے ،ہر سال نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فوک اینڈ ٹریڈیشنل ہیریٹیج ، اسلام آباد میں لوک میلہ سجایا جاتا ہے ۔ امسال بھی سجایا گیا ۔
ڈاکٹر صغریٰ صدف صاحبہ نے میلے کی کیا عمدہ تعریف کی ہے ۔کہتی ہیں کہ زندگی کی سڑک پر تنہا تنہا چلتے لوگ جب کسی جگہ ٹھہر کر بات کرنے ، جھومنے ، گانے اور سوچ کا تبادلہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو میلہ بن جاتا ہے، میلہ ملن سے ہے۔
بہت سارے لوگ ملتے ہیں تو میلہ سجتا ہے، لوگ سیکھتے ہیں، حوصلہ باندھتے ہیں، ذہن کی گٹھڑی میں نئے تصورات جمع کرتے ہیں، کٹھن راہ کیلئے زاد راہ جمع کرتے ہیں، دل کو جمال سے بھرتے ہیں اور نئے ولولے کیساتھ پھر ایک اور لمبے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔
لوک میلے کے ابھی دو روز باقی تھے کہ میں نے اپنے دوست ثاقب کو کہا کہ چل میلے نوں چلیے ! ثاقب کا تعلق ہری پور سے ہے اور یونیورسٹی میں میرا کلاس فیلو تھا۔
میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کر کے لوک ورثہ عجائب گھر کے دروازے پر کھڑا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں ثاقب بھی اپنے بھائی کے ہمراہ پہنچ گیا ۔
ہم لوک ورثہ میوزیم میں داخل ہوئے اور تمام پولینز کا دورہ کیا ،جہاں مختلف صوبوں سے آئے لوگوں سے ملاقات کی، اُن کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے صوفی شعراء کا کلام سنا، ہنرمندوں کے ہنر سے متعارف ہوئے ،ثقافتوں کے رنگ دیکھے اور فوک دھنوں پر رقص کیا۔
ثقافت عجائب گھروں کی زینت بن جائے تو سمجھ لینا کہ ایک قوم وقت کی خاک اوڑھ کر سو چکی ہے ۔ پاکستان کی ثقافت ،عظیم الشان ہے ۔جو کام، ہمارے کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی ثقافت کو اپنانا ہے ۔
عجائب گھروں جیسے مکان اور مخصوص ایام جیسے زمان تک محدود نہیں ہونے دینا۔
زندہ قوموں کی زندگی کا حوالہ گلی محلوں اور چوک چوراہوں میں ملتا ہے جبکہ مردہ قوموں کا حوالہ عجائب گھروں میں ملتا ہے ۔
ہماری ثقافت کے رنگ ،ہمارے گھروں ،گلی محلوں اور چوک چوراہوں میں بھی نظر آنے چاہییں ۔یہی بطور قوم ہماری زندگی کا حوالہ ہے۔
تقریباً دو گھنٹے میلے میں کئی لوگوں کے ساتھ گزارنے کے بعد ہم نے علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی زندگی کا سفر شروع کر دیا۔