ایک زمانے میں یہ گانا بہت مشہور ہوا تھا۔مجھے یاد ہے کہ کراچی کی لوکل بس میں جب بھی بیٹھنا ہوتا تو ڈرائیور یہ گانا ضرور لگاتا جس کے بول تھے۔
تم سا کوئی پیارا کوئی معصوم نہیں ہے
کیا چیز ہو تم خود تمہیں معلوم نہیں ہے
آپ لوگوں کو بتاتا چلوں کہ یہ بالی وڈ کا مشہور گانا ہم سب کے پسندیدہ اور دبنگ شاعر راحت اندوری صاحب نے فلم خدار کے لیے لکھا تھا۔ جس کا میوزک انو ملک نے دیا تھا اور اس گانے کے ہیرو اور ہیروئن گوندہ اور کرشمہ کپور تھے۔ یہی نہیں راحت اندوری صاحب نے بالی وڈ کی کئ فلموں جیسے ڈر ۔عشق۔مرڈر۔قریب۔اور منا بھائی ایم بی بی ایس جیسی فلموں کے لیے بھی سپر ہٹ گانے لکھے ہیں۔
راحت صاحب کی شاعری سےبھلا کون واقف نہیں ہے وہ عوام اور خواص دونوں میں مشہور و معروف ہیں۔ مجھے ان کی شاعری اور ان کی پرفارمینس دونوں ہی کمال کی لگتی تھیں۔ جس طرح ایک گلوکار گانے کے ساتھ پرفارم بھی کرتا ہے۔ اسی طرح راحت صاحب بھی اسٹیج پر پرفارم کیا کرتے تھے۔ شعر بھی کہتے٬ جملے بھی کستے٬لطیفے بھی سناتے اور سیاسی گفتگو بھی کرلیتے۔ راحت صاحب لوگوں کے لیے منورنجن کا پورا سامان لے کر اسٹیج پر جاتے تھے۔ ان کا دبنگ انداز آواز کا اتار چڑھاؤ اور پھر ظاہر ہے عمدہ شاعری لوگوں کے لیے ایک مکمل پیکیج تھی۔راحت صاحب کے بارے میں کیا لکھیں مگر کالم ہی جب ان کے لیے لکھا جا رہا ہے تو لکھنا تو پڑے گا۔یوں تو ہم ہر ایک کے لیے یہ مثال دے دیتے ہیں مگر سورج کو چراغ دکھانے والی بات راحت صاحب کے لیے سچ ثابت ہوئ ہے۔راحت صاحب زبردست قصہ گو بھی تھے۔ ان کا انداذ بیاں بڑا دلکش تھا ایک مشاعرے میں فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی سرکار کو چور کہ دیا دوسرے دن پولیس انھیں لے گئ اور آفیسر نے پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ نے سرکار کوچور کہا ہے۔راحت صاحب نے کہا ہاں کہا ہے مگر یہ نہیں کہا کہ کون سے ملک کی سرکار چور ہے یہ بات سن کرآفیسر کہنے لگا کہ آپ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں کیا ہمیں نہیں معلوم ہے کہ کہاں کی سرکار چور ہے۔
ایک مرتبہ کپل شرما شو میں گئے تو وہاں بھی اپنی حاضر جوابی سے سدھو٬ کپل شرما اور کمار وشواس کو لاجواب کردیا ہوا یوں کہ کپل نے جب اپنے شو میں کمار وشواس کو بلایا تو اس نے کئ شعر سنائے سدھو بھی یہی کچھ کرتا رہا مگر جب کپل نے راحت صاحب کو بلایا تو انھوں نے دو شعر سنا کر محفل لوٹ لی اور اس کے بعد کمار وشواس سے کہا کہ جس طرح میں نے شعر سنائے ہیں اور آپ نے سنے ہیں اس سے اندازہ ہوگیا ہے کہ بیس لطیفے سنانے سے بہتر ہے کہ ایک اچھا شعر سنا دیا جائے راحت صاحب کے اس جملے نے کپل سدھو اور خاص کر وشواس کو لاجواب کردیا جو پروگرام میں راحت صاحب کے ساتھ شوخیاں کر رہا تھا اور بوڑھے ہونے کا مذاق بھی اڑا رہا تھا راحت صاحب نے کہا کہ کمار مجھے بار بار بوڑھا کہ رہے ہیں مگر عشق کرنے کی اصل عمر ہی یہی ہے کیوں کہ اس عمر میں آدمی صرف عشق ہی کرسکتا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا ہے۔شاعروں کو پینے پلانے کی عادت بھی ہوتی ہے راحت صاحب ہی کا شعر ہے کہ
دن ڈھل گیا تو رات گزرنے کی آس میں
سورج ندی میں ڈوب گیا ہم گلاس میں
اس طرح راحت صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جون ایلیا کے ایک پروگرام میں کراچی جانا ہوا پھر وہاں سے صبح سکھر کے لیے نکلنا تھا تو راحت صاحب نے آرگنائزر سے پوچھا کہ سکھر پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا تو آرگنائزر نے کہا بس تین پیگ لگیں گے۔
منٹو نے کہا تھا کہ خدا کی سب سے خوب صورت تخلیق انسان ہے اوربلاشبہ اس بات میں صداقت ہے۔ بس جو آدمی خود کو ڈسکور کرلے وہ کامیاب ہوجاتا ہے اور اس میں اور بھی کئ خوبیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ راحت اندوری بھی کئ خوبیوں کے مالک تھے اور ان کی غربت نے ان کو اور چمکا دیا پڑھائی کے ساتھ ساتھ پیٹ پالنے کے لیے راحت صاحب نے سائن بورڈ بنانے شروع کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس کام میں ماہر ہوگئے اور اندور کی بڑی بڑی جگہوں پر ان کا کام اور نام مشہور ہونے لگا۔اسی طرح کرائے کی سائیکل چلا تے اور پیسے کی جگہ اس کی نمبر پلیٹ لکھ دیتے۔اپنی اماں کی سفارش پر پہلا مشاعرہ راحت صاحب نے پڑھا۔ مشاعرہ کمیٹی میں ان کے ماموں شامل تھے 10٬15 دوستوں کا گروپ راحت صاحب کے کلام پر واہ واہ اور ونس مور کہتا رہا مگر لوگوں نے ڈانٹ کر چپ کروادیا مگر آج یہ حال ہے کہ راحت صاحب کے مرنے کے بعد بھی ان کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے۔فلی دنیا کسے متاثر نہیں کرتی اوراحت صاحب کو بھی بمبئی نگریا نے اپنی طرف مائل کیا۔ یہ حسین اتفاق تھا کہ وہ فلمی دنیا کا حصہ بن گئے اور کئ سپر ہٹ گانے لکھ ڈالے جیسے۔
تم سا کوئی پیارا کوئی معصوم نہیں ہے۔
کوئی جائے تو لے آئے میری لاکھ دعائیں پائے۔
دیکھو دیکھو جانم ہم دل اپنا تیرے لیے لائے۔
چوری چوری جب نظریں ملیں۔
بھومرو بھومرو شام رنگ بھومرو۔
راحت صاحب فلمی دنیا میں ان ہوگئے تھے مگر اس وقت وہ اندور کالج میں پڑھا بھی رہے تھے۔ اکثر گانے لکھنے کے سلسلے میں انو ملک اور دوسرے میوزک ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سے ملنے ممبئ جاتے۔اس دوران کمرشل کام کرنے کے سلسلے میں انھیں مشکلیں بھی اٹھانا پڑیں راحت صاحب بتاتے ہیں کہ ایک پروڈیوسر نے ان سے کہا کہ راحت صاحب ہمیں ایک گانا لکھوانا ہے مگر یہ لائن ضرور آنی چاہیے اور وہ لائن غالب کی ایک مشہور لائن تھی راحت صاحب نے اس پروڈیوسر سے کہا کہ دیکھیں ہم غالب کی شاعری کا حصہ شامل کریں گے تولوگ سمجھ جائیں گے اور برا مانیں گے۔ اس پر پروڈیوسر نے کہا کہ راحت بھائی یہ غالب کون ہے اس کو دو ہزار دے کر فارغ کریں ۔کالم کے آخر میں یہ بھی بتا دوں کہ راحت صاحب نے ایک فلم میں ایکٹنگ بھی کی تھی این ایم غوری کی فلم دلبر کے ایک سین میں وہ جیل کے اندر قیدیو ں کا لباس پہنے شعر سنا رہے ہیں۔
یہ وڈیو آپ یوٹیوب پر باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ آج بر صغیر اور مشاعروں میں ایک سناٹا ہے کوئی شور سنائی نہیں دیتا ہے۔ لوگ اپنا کلام سناتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔وہ آواز جس کی گونج سے مشاعروں کے اسٹیج ہل جایا کرتے تھے کہیں سنائی نہیں دیتی۔ بلاشبہ راحت اندوری نے مشاعروں کو بینائی عطا کی ہے۔ لوگ ان کی بدولت مشاعرہ سننے ہی نہیں دیکھنے بھی جاتے تھے۔راحت صاحب سے لوگ کل بھی محبت کرتے تھے اور آج بھی لوگ ان سےمحبت کرتے ہیں
جنازے پر میری لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے
راحت اندوری صاحب جیسا شاعر٬استاد٬ پینٹر٬ اداکار اور پرفارمر اب مشکل ہی سے اردو شاعری کو نصیب ہوسکے گا۔ ان کا دبنگ لہجہ٬ زبردست اسٹائل٬ گرج دار آواز٬ شعر کو زور دے کر پڑھنا اور ہلکا سا قہقہ لگانا اردو دنیا کبھی بھول نہیں پائے گی واقعی راحت صاحب
"تم سا کوئی پیاراکوئ معصوم نہیں ہے”