پاکستان، بنگلہ دیش اور گلگت بلتستان

انٹرنیشنل ختمِ نبوت کانفرنس، سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر علم و ایمان کا ایک ایسا اجتماع کہ جہاں پاکستان کے ہر صوبے سے سینکڑوں نامور علماء کرام پہنچے۔ اس بابرکت اجتماع کے لیے علمی قافلے کے پی کے پہاڑوں سے اترے، سندھ کی دھرتی سے چلے، پنجاب کی ندیاں اور میادین پار کیں اور بلوچستان کے صحرا و سنگلاخ راستوں سے گزرے، اور چترال سے قاری فیض اللہ چترالی بھی اس قافلے میں شامل ہوئے۔

مگر دریائے سندھ کے دامن میں بسے خطے، پہاڑوں کی دیوی گلگت بلتستان سے کسی ایک عالم کا نام بھی فہرست میں نہ تھا۔

مجھے یہ سب کچھ دیکھ کر یوں لگا جیسے پورا خطہ کسی مصلے کے گوشے میں بھولے ہوئے تسبیح کے دانے کی طرح خاموش پڑا رہ گیا ہو۔ خاموش کیا پڑا ہو کٹ کر رہ گیا ہو۔

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب بھی اپنی جماعت کا ایک بھرپور وفد لے کر کانفرنس میں شریک ہوئے۔ وفد یقیناً بڑا تھا، مگر اس بڑے وفد میں جے یو آئی گلگت بلتستان کا وجود ایسے غائب تھا جیسے سیاست میں اصول، یا جلسوں میں سچائی، بس حوالوں میں ملتے ہیں، حقیقت میں نہیں۔ ایسے لگا کہ گلگت بلتستان بھی کچھ دنوں کے لیے حوالہ تو ہے مگر حقیقت نہیں۔

گزشتہ سال کی سیاسی سرگرمیوں نے یقیناً امید کی ایک لَو روشن کی تھی۔ لگتا تھا کہ جے یو آئی گلگت بلتستان کسی نئی بیداری کے دہانے پر کھڑی ہے۔ مگر یہ خوش فہمی جماعت کے انٹرنل انتخابات کے بعد اس طرح ہوا میں تحلیل ہوئی جیسے گلگت کی شاموں میں کہر اچانک سارے منظر نگل لیتی ہے۔

ایک ہی گاؤں کے دو افراد امیر اور جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، اور پھر جماعتی فیصلوں پر ذاتی رنجشوں کی ایسی گرد پڑی کہ اصل مسائل کہیں پیچھے رہ گئے۔ یوں محسوس ہوا جیسے جماعت نہیں، گاؤں کی لٹکی ہوئی پنچایتی لڑائی چل رہی ہو۔ اور اس لڑائی میں امیر اور جنرل سیکرٹری مرکزی کردار ادا کررہے ہوں۔

اب حال یہ ہے کہ جے یو آئی گلگت بلتستان کے کارکن بکھری ہوئی کتاب کے صفحوں کی طرح تتربتر ہیں، مرکز سے رابطے ایسے منقطع ہیں جیسے پرانا فون لائن جس میں ڈائیل کرنے پر صرف "پپ پپ… ٹک ٹک…” کی آواز آتی ہو۔

حساس دل جانتے ہیں کہ یہ المیہ بھی ہے اور خبردار کرنے والی گھنٹی بھی، کیونکہ جو جماعت اندر سے ٹوٹ جائے، وہ باہر کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتی۔

مجھے ڈر ہے کہ اگر بروقت مرہم نہ رکھا گیا تو آنے والے دنوں میں اختلافات کا یہ شعلہ مزید بھڑکے گا اور جماعت کی رہی سہی گرمجوشی بھی راکھ ہو جائے گی۔

لہٰذا لازم ہے کہ جی بی کی قیادت بھی بیدار ہو اور مرکزی اکابرین بھی متحرک ہوں۔ جماعت جیسے ٹوٹی ہوئی کشتی ہے جسے دستِ تدبیر اور اخلاص کے ناخدا کی ضرورت ہے، ورنہ یہ کشتی سیاست کے طوفان میں مزید ڈوبتی چلی جائے گی اور کارکن مزید مایوس ہونگے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ذاتی رنجشوں سے بالاتر ہو کر جماعت کی فکر کی جائے، ورنہ تاریخ کے دریچے میں ہمارے نام محض ایک حاشیہ بن کر رہ جائیں گے۔

عقلاء کے لیے اتنا کافی ہوتا ہے وہ بر وقت تدبیر کریں ورنا یہ بھی یاد رکھیں کہ جی بی اسمبلی میں ایک دو نشستوں کی چانس بن رہی ہے وہ بھی مشکل ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے