عشقِ بابر سر چڑھ کر بولے

راولپنڈی اسٹیڈیم میں ہونے والا دوسرا ون ڈے ایک عجیب قسم کا نظارہ تھا۔ اس دن کرکٹ تو کہیں پیچھے رہ گئی تھی اور بابر اعظم آگے۔ جیت ہار، رنز ریٹ، وکٹیں، حکمتِ عملی—کسی چیز کی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔ پورے میدان میں صرف ایک ہی خواہش گردش کر رہی تھی کہ بابر آج سنچری کرے۔ دو سال سے انہوں نے کوئی سنچری نہیں بنائی، مگر محبت کی درجہ بندی میں وہ آج بھی پاکستان کے سب سے اوپر ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ملک میں کوئی نیا عشق دریافت ہوا ہے، اور اس کا نام ہے بابر اعظم۔

میچ کے آغاز میں ہی ماحول بتا رہا تھا کہ آج لوگ میچ دیکھنے نہیں، بابر کی “دیکھ بھال” کے لیے آئے ہیں۔ وہ ہر گیند روک رہے تھے اور عوام اس ڈاٹ بال پر یوں تالیاں بجا رہی تھی جیسے کوئی کلاسیکل شاٹ مارا ہو۔ میرے قریب بیٹھے ایک صاحب نے بے حد سنجیدگی سے کہا: “آج بابر سنبھل کر کھیل رہا ہے، لگتا ہے سینچری بنے گی۔” یوں لگا جیسے یہ میچ نہیں بلکہ کوئی قوم کی اجتماعی دعا کا دن ہو۔

جب وہ پچاس پر پہنچے تو اسٹیڈیم میں ایک عجیب سا سکون اُترا۔ لوگوں کے چہروں پر وہی اطمینان تھا جو میٹرک میں بچہ بمشکل پاس ہو جانے پر والدین کے چہروں پر آتا ہے۔ بچے، بزرگ، خواتین، مرد—سب کے چہرے ایک ہی جملہ چیخ رہے تھے: “اب آگے بس سنچری چاہیے۔” یہاں تک کہ ٹیم کے اپنے کھلاڑی بھی ہاتھ اُٹھا کر کچھ نہ کچھ دعائیں مانگتے نظر آئے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بابر صرف پاکستان ٹیم کے نہیں، قوم کے مشترکہ داماد ہوں۔

اصل تماشا تو تب شروع ہوا جب بابر 90 کے قریب پہنچے۔ پورا میدان اپنے قدموں پر کھڑا تھا۔ رزوان کریز پر آیا تو ایسے لگا جیسے عوام کا مقصد صرف ایک تھا: رزوان جی! خدا کے واسطے سنگل دے دو۔ لوگ اس زور سے رزوان کو ہدایات دے رہے تھے کہ اگر اس لمحے اسے کپتانی بھی واپس دے دی جاتی تو اس شرط پر کہ “بس بابر کو سنگل دلا دینا”، قوم خوش ہو جاتی۔

میں خود بھی انہی جنونیوں میں شامل تھا۔ دل میں عجیب سی بے چینی تھی کہ بابر آج یہ سنچری ضرور کرے۔ میرا ساتھ بیٹھا آدمی بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہہ رہا تھا: “یا اللہ آج کر دے… بہت عرصہ ہو گیا ہے۔” ایسا لگ رہا تھا جیسے پاکستان میں سنچری کوئی نعمتِ غیر مترقبہ ہو۔

پاکستان نے دنیا کو بڑے بڑے کرکٹر دیے۔ جاوید میانداد کی بے خوفی، وسیم اکرم کی جادوگری، آفریدی کی بے تحاشا انرجی، اور عمران خان کی کرشماتی قائدانہ صلاحیت… لیکن کرکٹر سے محبت صرف دو کو ملی: ایک عمران خان کو اور دوسرا بابر اعظم کو۔ یہ محبت اعداد و شمار سے نہیں، دلوں کے دھڑکنے سے جانی جاتی ہے۔ کوئی آؤٹ ہو جائے تو افسوس ہوتا ہے، مگر بابر کا آؤٹ ہونا ذاتی دکھ لگتا ہے۔

بابر کی سٹیٹسٹکس بھی کسی عام کھلاڑی کی نہیں:
دنیا کے تیز ترین 5,000 رنز، کئی سال ٹی ٹوئنٹی کے نمبر ون بیٹسمین، تینوں فارمیٹس میں مستقل مزاج پرفارمنس… اور قیادت چھوڑنے کے بعد بھی مقبولیت میں اضافہ۔ یو ایسے ہی نہیں لوگ کہتے ہیں کہ بابر بیٹنگ نہیں کرتا، بیٹنگ لکھتا ہے۔

آخر میں ایک مشاہدہ جو میں بطور چشم دید گواہ پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں: بابر اعظم صرف ایک کرکٹر نہیں، ایک کیفیت ہیں۔ وہ میدان میں نہ بھی ہوں تو لوگ ان کی بات کرتے ہیں۔ وہ بیٹنگ کریں تو ملک سانس روک لیتا ہے۔ اور جب وکٹ دے جائیں تو گہرے دوست کی جدائی کا احساس ہوتا ہے۔

میری بھی دعا ہے کہ بابر اسی طرح کھیلتا رہے۔ رنز آئے یا نہ آئیں، سنچری بنے یا نہ بنے… محبت اپنی جگہ ہے۔ یہ محبت کم نہیں ہوگی، کیونکہ یہ حساب کتاب کے بجائے دل کی تحریر ہے۔ اور دل جب کسی پر مہربان ہو جائے تو پھر ہر ڈاٹ بال بھی تالیاں لے جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے