وہ جو سوچنے کی جرات دیتی تھیں: عارفہ سیدا زہرہ کا چراغ

۱۰ نومبر ۲۰۲۵ کی صبح ایک ایسی خبر لے کر آئی جس نے دل کو جیسے تھام لیا. ڈاکٹر عارفہ سیدا زہرہ اب ہم میں نہیں رہیں۔ یہ صرف ایک شخصیت کا جانا نہیں تھا، یہ ایک عہد کا اختتام تھا۔ وہ جن کی باتوں میں علم کی روشنی تھی، جن کی خاموشی میں بھی فہم کی گونج تھی، وہ جنہوں نے نسلوں کو زبان، تاریخ اور سماج کی پہچان دی, وہ اب صرف یادوں میں رہ گئی ہیں۔

ایک استاد کی وفات صرف ایک فرد کا رخصت ہونا نہیں، بلکہ ایک عہد کا اختتام ہوتا ہے۔ وہ جو علم بانٹتا تھا، سوال جگاتا تھا، اور سوچنے کی جرات دیتا تھا، اب خاموش ہو گیا ہے۔ استاد کی موت وہ لمحہ ہے جب درسگاہ کی دیواریں بھی سوگوار ہو جاتی ہیں اور کتابیں جیسے رک کر سانس لینے لگتی ہیں۔ شاگردوں کے دلوں میں ایک خلا جنم لیتا ہے، جو صرف یادوں، دعاؤں اور اس تربیت سے بھر سکتا ہے جو وہ چھوڑ گیا۔ ایک استاد کبھی مکمل طور پر نہیں جاتا، وہ اپنے الفاظ، اپنے انداز، اور اپنی روشنی میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

عارفہ سیدا زہرہ (۲۲ جون ۱۹۳۷ – ۱۰ نومبر ۲۰۲۵) پاکستان کی ایک باوقار انسانی حقوق کی علمبردار، دانشور، اور استاد تھیں جنہوں نے اپنی زندگی تعلیم، فکری آزادی، اور سماجی انصاف کے فروغ کے لیے وقف کر دی۔ وہ نہ صرف درس و تدریس کے شعبے میں ممتاز رہیں بلکہ انسانی وقار، خواتین کے حقوق، اور مکالمے کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ ان کی گفتگو میں شائستگی، بصیرت اور اصول پسندی جھلکتی تھی، اور وہ ہمیشہ علم کو سماجی شعور سے جوڑ کر دیکھتی تھیں۔ ان کی وفات ایک ایسا خلا ہے جسے صرف ان کی یاد، ان کے افکار، اور ان کے شاگردوں کی روشنی سے ہی پُر کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر عارفہ سیّدہ زہرہ کو سات زبانوں پر عبور حاصل تھا، جو ان کی وسعتِ مطالعہ، بین الثقافتی فہم، اور علمی گہرائی کا مظہر تھا۔ وہ تعلیمی، انتظامی، سماجی اور ثقافتی کمیٹیوں کی فعال رکن رہیں، اور ہر فورم پر وقار، فہم اور شائستگی کی نمائندہ بن کر ابھریں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ علم، اخلاق اور انسان دوستی کے فروغ کے لیے وقف رہا۔ ان کی گفتگو میں جو شائستگی اور بصیرت تھی، وہ اب ایک خاموشی میں ڈھل گئی ہے, مگر ایسی خاموشی جو آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار بن کر باقی رہے گی۔

ذیل میں ڈاکٹر عارفہ سیدا زہرہ کی ایک بصیرت افروز نشست کے دوران سامنے آنے والے چند خیالات، تجربات اور مشاہدات درج کیے جا رہے ہیں، جو نہ صرف ان کی علمی وسعت کا مظہر ہیں بلکہ ہمارے سماجی شعور کو بھی جھنجھوڑتے ہیں۔

1۔ صوفی وہ ہے جو طاقت کے سامنے جھکتا نہیں بلکہ سچائی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ تاریخ کے ہر موڑ پر جہاں بھی صوفیا کا ذکر آتا ہے، وہ ظلم کے خلاف آواز بنے نظر آتے ہیں۔ اصل صوفی ہے جو دنیا کو چھوڑتا نہیں بلکہ اس میں رہ کر اس سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ اس کی باتیں تجربے اور معرفت سے جنم لیتی ہیں، اور خدا کی تلاش میں وہی لفظ چنتا ہے جن میں درد، جستجو اور آگ ہو۔ عشق کوئی آسان راہ نہیں، یہ آگ کا دریا ہے جس میں تیر کر جانا پڑتا ہے، اور بہت سے لوگ تو کنارے پر کھڑے ہونے کے بھی لائق نہیں ہوتے۔

صوفی اور مولوی کو ایک سمجھنا نادانی ہے۔ مولوی دیواریں کھینچتا ہے، صوفی دلوں کے دروازے کھولتا ہے۔ مولوی کا خدا, حساب لینے والا ہے، صوفی کا خدا رحمت بانٹنے والا۔ اگر خدا نے مجھے پیدا کیا ہے تو کیا صرف غلطی کے لیے؟ اگر نیت ہی غلط ہوتی تو ذمہ داری بھی اسی پر ہوتی۔ اس لیے میں اس خدا سے محبت کرتا ہوں جس کی اصل پہچان رحمت ہے، نہ کہ خوف۔ صوفی دنیا کو بند فائل نہیں سمجھتا، وہ اس میں اترتا ہے مگر دامن بچا کر کیونکہ اس کے اندر بدنیتی نہیں ہوتی۔ وہ نیت کی پاکیزگی سے محبت کرتا ہے، بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے اور بدلے میں کچھ نہیں مانگتا۔ دنیا کو چھوڑنا صوفی کا طریقہ نہیں، وہ دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے ماورا ہوتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اصل حقیقت محبت ہے، نسبت ہے اور قربِ خدا۔ اس سفر کا آغاز ہمیشہ خود کو مٹانے سے ہوتا ہے۔

2۔ تعلیم کوئی منزل نہیں ہے۔ عارفہ سیدا زہرہ منزل کے تصور پر یقین ہی نہیں رکھتی۔

منزل تو ان لوگوں کو ملتی ہے جو تھک جاتے ہیں۔
جو طلب کرتے ہیں، انہیں صرف سفر ملتا ہے, ایسا سفر جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
لوگ ہمیشہ آپ سے کہتے ہیں: "اللہ کرے آپ کو آپ کی منزل مراد مل جائے!”
مگر میری مراد کوئی ایک نہیں ہے, میں ہر قدم پر کچھ نہ کچھ لے لیتی ہوں۔
مراد کوئی چیز نہیں، یہ تو دلچسپی ہے، اور دلچسپی کے معنی بھی مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔
یہ ایک خط ہے اور میں آپ سب لوگوں سے صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں:
خدا کے لیے خوش رہنا سیکھو۔
جو خوش ہوتا ہے، جو مطمئن ہوتا ہے، وہی عمل کرتا ہے۔
اور جو عمل کرتا ہے، وہی بامراد ہوتا ہے۔
اور جو بامراد ہوتا ہے، وہی سرخرو ہوتا ہے۔

3۔ تکبر انسان کو مٹا دیتا ہے۔

اور سب سے برا تکبر وہ ہے جو عبادت کے پردے میں چھپا ہوتا ہے۔
جب یہ خیال ہونے لگے کہ "مجھ سے زیادہ نیک و پرہیزگار کوئی نہیں”
تو سمجھ لو کہ وہی انسان مٹ گیا، خاک ہو گیا، مٹی ہو گیا۔

موتی رولنے کے لیے خاک چھاننی پڑتی ہے، خاک میں ملنا پڑتا ہے۔
اور جو پہلے ہی خود کو موتی سمجھ لے، اسے موتی کہاں سے ملیں گے؟
وہ صرف ایک وہم و گمان میں زندہ ہے اور اس کی زندگی گمان سے زیادہ کچھ نہیں۔

اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جنہوں نے تکبر کیا، ان کی خیبر بڑی بری طرح ملی۔
تاریخ گواہ ہے.
اس وقت فرعون، قارون اور ہامان تھے۔
آج کے دور میں بھی وہ موجود ہیں۔
آج کے قانون میں بھی ہیں۔
آج کے عوام میں بھی۔
اور ان کا کیپر – ان کو لے ڈوبے گا۔

عارفہ سیدا زہرہ کے انتقال کی خبر آتے ہی ملک بھر میں علمی حلقوں، جامعات، ادبی تنظیموں اور ان کے شاگردوں میں ایک خاموش ماتم چھا گیا۔ سوشل میڈیا پر ان کے شاگرد، مداح اور ہم عصر شخصیات نے ان کی علمی خدمات، فکری جرات اور تہذیبی وقار کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کے لیکچرز، انٹرویوز اور تحریریں اب ایک ورثے کی صورت محفوظ ہیں، جن سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کرتی رہیں گی۔

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عارفہ سیّدہ زہرہ کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور ہمیں ان کے علم، وقار اور فکری جرات کو اپنانے کی توفیق دے۔ آمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے