شیخ حسینہ واجد: طویل اور بے رحم اقتدار سے عبرتناک انجام تک کی داستان

سحر انگیز مشرقی بنگال کے ایک چھوٹے سے گاؤں تنگی پارہ میں 28 ستمبر 1947 کو ایک روشن صبح ہوئی جب ایک بنگالی مسلم خاندان میں شیخ حسینہ کی پیدائش ہوئی۔

ان کے والد شیخ مجیب الرحمن ایک مشہور قوم پرست رہنما اور ان کی والدہ بیگم فضل النساء مجیب ایک محبت بھری ماں تھیں جنہوں نے اپنی بیٹی کو ابتدائی سالوں میں زندگی کی پہلی باتیں سکھائیں۔ ان کے خاندان کا نسب عراقی عرب سے جڑتا تھا جو بغداد کے مشہور مبلغ شیخ عبد الاول درویش کی نسل سے تعلق رکھتا تھا اور مغل دور کے آخر میں بنگال منتقل ہوا۔ حسینہ کی بچپن کی یادیں اپنے گاؤں کی خاک اور اپنی دادی و والدہ کی شفقت سے جڑی تھیں اور جب خاندان ڈھاکہ منتقل ہوا تو ابتدائی رہائش سیگن باگیچہ کے پڑوس میں قائم ہوئی۔

چھوٹے سے گھر میں حسینہ نے اپنے ابتدائی تعلیمی سال گزارے اور خاندان کی سیاسی سرگرمیاں ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتی رہیں۔ 1954 میں ان کے والد کی وزارت کے بعد وہ 3 منٹو روڈ پر منتقل ہو گئیں۔ اس وقت ان کی والدہ نے بتایا کہ والد ایک رات قبل گرفتار ہو گئے تھے اور یہی واقعہ حسینہ کے دل میں سیاسی شعور کی بنیاد بنا۔ والد کی غیر موجودگی اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ اور ان کے بہن بھائی اپنے والد کے قریب کم وقت گزار سکے لیکن والد کی محبت اور اصول ان کی شخصیت میں مضبوطی پیدا کرتی گئی۔

تعلیم کی راہوں میں حسینہ نے گاؤں کے پرائمری اسکول سے آغاز کیا اور بعد میں ڈھاکہ منتقل ہو کر عظیم پور گرلز اسکول میں داخلہ لیا۔ ایڈن کالج میں داخلہ کے بعد وہ طلبہ یونین کی نائب صدر منتخب ہوئیں جہاں ان کے قائدانہ رویے نے سب کو متاثر کیا۔ 1967 میں انہوں نے ایم اے واجد میاں سے شادی کی جو فزکس میں مہارت رکھتے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سے بنگالی ادب میں گریجویشن کے بعد وہ روکیہ ہال میں مقیم رہیں اور خواتین یونٹ کی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئیں جس نے ان کی سیاسی بصیرت اور قیادت کو مزید مضبوط کیا۔

مزید برآں شیخ حسینہ کی سیاسی زندگی ایک المیہ اور عزم ہے وہ شیخ مجیب الرحمن کی سب سے بڑی بیٹی ہیں جنہیں بنگلادیش کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے دور میں انہوں نے بنگالی خودمختاری کی جدوجہد دیکھی اور ابتدا ہی سے سیاست میں قدم رکھا۔ 1975 میں فوجی انقلاب نے ان کے خاندان کو تباہ کر دیا والد، والدہ اور تین بھائی قتل کر دیے گئے اور انہیں اور ان کی بہن کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔

1981 میں وطن واپسی کے بعد انہوں نے عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی اور برسوں کی جدوجہد کے بعد 1996 میں پہلی بار وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔ ان کے دور حکومت میں ملک نے اقتصادی ترقی دیکھی مگر سیاسی مخالفین نے کرپشن، جمہوریت کی پسپائی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگائے۔ ان کے اقتدار میں حکومت نے ووٹر دباؤ، میڈیا اور اپوزیشن کی ہراسانی کے واقعات میں حصہ لیا اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔

شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں سب سے زیادہ سختیاں اور ریاستی مظالم جماعتِ اسلامی پر ڈھائے گئے۔ جماعت اسلامی کو کلعدم قرار دے کر ان کے رہنماؤں کو بڑی تعداد میں 1971 کے مقدمات میں گرفتار کر کے ان کو عدالتوں سے پھانسیوں کی سزائیں دلائیں اور بڑی تعداد میں کارکنوں جیلوں میں ڈالا گیا اور قتل بھی کروائیں گئے۔ جماعت اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائی گئی اور اس کے علاوہ جماعت کے رہنماؤں کے خلاف دیگر سنگین نوعیت کے مقدمات نے بنگلہ دیش کے سیاسی ماحول کو شدید طور پر متاثر کیا۔ تاہم حیران کن طور پر انہی برسوں میں جماعتِ اسلامی عوامی سطح پر سب سے بڑی اور منظم سیاسی قوت کے طور پر ابھری ہے۔ جگہ جگہ لاکھوں کے اجتماعات کا انعقاد، دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں زبردست عوامی پزیرائی اور نئی نسل میں بھی اثر و رسوخ نے جماعت اسلامی کو نمایاں قوت بنایا ہے۔

2008 سے 2024 تک حسینہ دوبارہ اقتدار میں رہیں اور اگرچہ ملک نے معاشی ترقی کی راہیں طے کیں انسانی حقوق کے حامی ان پر یک جماعتی نظام کی طرف دھکیلنے کے الزامات لگاتے رہے۔ ان کے دور میں سائبر قوانین کے ذریعے اظہار رائے پر قدغن صحافیوں اور کارکنان کی گرفتاری اور من مانی حراست کے بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان کے اقتدار کو کئی احتجاجی تحریکوں نے چیلنج کیا لیکن وہ سیاسی طاقت میں برقرار رہیں۔

گزشتہ برس Gen Z کی قیادت میں ہونے والی طلبہ تحریک نے صورتحال بدل دی جس نے عوامی لیگ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ خاندان کے کئی افراد اہم رہنما اور سابق وزرا ملک چھوڑ چکے ہیں اور حسینہ خود بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں جلاوطنی میں مقیم ہو گئی ہیں۔ 17 نومبر کو ڈھاکا کے قانون سازوں نے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی جس کے بعد ان کی سیاسی طاقت مکمل طور پر محدود ہو گئی۔

عدالتی کارروائی میں ان پر مظاہرین کے قتل احتجاج کو دبانے کے لیے مہلک ہتھیاروں کے استعمال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پانچ اہم الزامات عائد تھے۔ عدالت نے واضح کیا کہ حسینہ نے اپنی جماعت کے کارکنان کو تشدد پر ابھایا اور احتجاج کرنے والے طلبہ کے قتل اور ختم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ یہ فیصلہ ملک میں گزشتہ برس طلبہ بغاوت کے اثرات کے درمیان آیا جس نے عوامی لیگ کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔

اس فیصلے کا اثر نئی دہلی تک محسوس کیا گیا جہاں بھارت نے اپنے ردعمل میں تعمیری بات چیت کا وعدہ کیا۔ اقوامِ متحدہ نے فیصلے کو متاثرین کے لیے اہم لمحہ قرار دیا اور سزائے موت کے نفاذ پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ او ایچ سی ایچ آر نے کہا کہ بین الاقوامی جرائم کے مقدمات میں شفاف کارروائی اور منصفانہ سماعت لازمی ہے۔

فیصلے کے بعد شیخ حسینہ نے اپنے بیان میں ٹریبونل کو سیاسی اور متعصب قرار دیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں انسانی حقوق اور ترقی کے ریکارڈ پر فخر کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ ٹریبونل ایک غیر منتخب حکومت کے زیر اثر کام کر رہا تھا۔ ان کے وکلا نے اقوامِ متحدہ کے نمائندے کے پاس منصفانہ ٹرائل کی درخواست بھی جمع کرائی۔

فیصلے کے نتیجے میں ڈھاکا میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ کچھ لوگ جشن منا رہے تھے اور طلبہ ریلی نکال کر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے جبکہ دیگر تشدد پر اُتر آئے۔ سیکیورٹی فورسز عدالت کے ارد گرد تعینات کی گئیں اور پٹرول بم کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ حسینہ کے بیٹے نے خبردار کیا کہ عوامی لیگ کے بغیر انتخابات نہیں ہونے دیں گے اور احتجاج مزید طاقتور ہو سکتا ہے۔

شیخ حسینہ کی سیاسی زندگی اقتدار کی چمک، جلاوطنی اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں تک پہنچنے کے سائے میں مکمل ہوتی ہے۔ ایک طرف ملک کی ترقی دوسری طرف سیاسی بنیادوں پر مخالف قوتوں کو بدترین تشدد کا بنانا اور پھر ردعمل میں بھرپور عوامی مظاہرے اور بیچ میں عالمی دائرہ کار کی تشویش یہ سب مل کر بنگلادیش کی حالیہ سیاسی تاریخ کو ایک سبق آموز متنازع اور جذباتی داستان میں بدل دیتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے