چند روز قبل پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ جان عابد نے مجھے دعوت دی تھی کہ ہماری علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کی ترقی کے حوالے سے تیسرا بین الاقوامی دو روزہ کانفرنس منعقد ہورہی ہے، آپ دونوں دن ہمارے ساتھ رہیں گے۔ یہ میرے لیے خوشی کی بات تھی کہ میرے دوست اور بھائی نے مجھے نہایت محبت سے دعوت دی، ورنہ علم کے تشنہ ور تو اس طرح کے کانفرنسوں میں اکثر بن بلائے پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اس کانفرنس کے پہلے دن افتتاحی تقریب کے بعد مفتی فضل اللہ فانی کی شہرہ آفاق کتاب "چہار عکس” کی تقریبِ رونمائی بھی تھی۔
مفتی فانی کی یہ کتاب فارسی زبان کے سبک ہندی کے چار شعراء بیدل، صائب، غنی اور غالب کی اردو منظوم ترجمے پر مبنی کتاب ہے۔ میرے ادبی سفر میں یہ پہلی ترجمہ کی کتاب ہے جس نے پاکستان، ایران، افغانستان اور ہندوستان کے علمی و ادبی حلقوں میں پزیرائی حاصل کی ہے ۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ایک کم عمر پختون بھائی، جس کا تعلق ضلع صوابی مانکی نامی گاؤں سے ہے، جس نے تعلیم دینی مدارس سے حاصل کی، درسِ نظامی کا فاضل اور فقیہ ہے ۔ عربی، فارسی اور پشتو زبانوں جید استاد ہے، اس کی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شرکت میرے لیے فرضِ عین بن گیا ہے، مگر قدرت کا اپنا نظام ہے کہ گزشتہ جمعرات کی شام سے سخت زکام میں مبتلا ہوا شدید تکلیف کے ساتھ صحتیابی کی امید دل سے لپٹی رہی کہ 17 نومبر تک بہتر ہوجاؤں گا۔ آج جب پیر کی صبح بیدار بیدار ہوا تو خود کو بستر سے اٹھنے سے آمادہ کیا ، مگر بدن میں اٹھنے کی سکت نہیں تھی ۔ بہ آمر مجبوری بوجھل دل دل سے ڈاکٹر عبداللہ جان عابد کو وائس میسج کیا کہ بھائی! بیماری کی وجہ سے کانفرنس میں شرکت سے معذرت خواہ ہوں۔
تقریباً ایک بجے کے لگ بھگ مفتی فضل اللہ فانی صاحب کا فون آگیا کہ ہم پہنچ چکے ہیں، آپ کہاں ہیں؟ میں نے تمام صورتحال بتائی۔ انہوں نے دعا کی اور کہا کہ اگر اب تک نہ نکلے تو آدھے پونے گھنٹے میں نکلنا ناممکن ہے ۔ تھوڑی دیر بعد اکوڑہ خٹک کے ایک عالم فاضل شخصیت جو خوشحال خان خٹک کی رباعیات کے انگلش مترجم ہے اور پشتو زبان میں سبک ہندی ممتاز کلاسک شاعر کاظم خان شیدا کے اردو مترجم جناب سمیع الرحمن کا فون آیا۔ انہوں نے بھی پوچھا کہاں ہو؟ میں نے کہا بستر پر بیمار ہوں ۔ کہنے لگے: میں بھی بیمار ہوں، مگر فانی صاحب کی کتاب کی تقریبِ رونمائی ہے، شرکت نہایت ضروری ہے تیار ہو جاؤ، میں گاڑی لے کر آتا ہوں۔ جناب سمیع الرحمن کی اس برجستہ کہنے نے روح کو تازگی بخشی اور بستر سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ اور جلد از جلد اپنے آپ کو تیار کیا۔ ہم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی اکیڈمک بلڈنگ کے کمرہ نمبر 207 میں داخل ہوۓ تو پروگرام شروع ہوا تھا۔ ایک مقرر اپنی تقریر مکمل کرچکے تھے اور دوسرے مقرر جناب نورالامین یوسفزئی محوے گفتگو تھے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ پشتو میں فارسی کے ترجمے کی روایت اخوند درویزه سے شروع ہوتی ہے اور خوشحال خان خٹک کے خاندان سے آگے تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہوئی مفتی فضل اللہ فانی تک پہنچتی ہے۔ جناب نورالامین یوسفزئی نے کہا کہ جب یہ بات میرے تک پہنچی کہ فانی نے سبک ہندی کے چاروں شعرا کے اشعار کا منظوم ترجمہ کیا ہے، تو سو فیصد یقین نہ آیا، مگر جب کتاب میرے سامنے آئی تو حق یقین ہوگیا کہ یہ صرف منظوم ترجمہ نہیں بلکہ یہ فانی کی اس کتاب میں سمندر کے بحر میں لہروں اور لفظیات کے سمندر میں تلاطم خیزی مانند حیرت انگیز حد تک قریب تر ہیں۔
ڈاکٹر حنیف خلیل جو خود سبک ہندی کے شاعر کاظم خان شیدا کے شارح ہیں، انہوں نے فرمایا کہ سبک ہندی کے یہ چاروں شعرا بہت مشکل ہیں، مگر مفتی فانی ایک کمال مترجم ہیں جنہوں نے ان بلند پایہ شعراء کی تخلیقی اور منظوم ترجمے کی ہے، یہ مشکل گراں قدر کام اس وقت ممکن ہے جب مترجم فارسی اور اردو دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہو ، فضل اللہ فانی ان دونوں زبانوں کے استاد ہے اور ان ادبی روایت پر دسترس حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ سبک ہندی کے ان چہار مشکل شعراء کی شاعری کے معنی و مفہوم کے ساتھ دونوں زبانیں بھی سکھاتا ہے ۔
اردو کے معروف شاعر اختر عثمان نے کہا:
"مجھے سبک ہندی سے اختلاف ہے، میں اسے سبک دری کہتا ہوں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ مفتی فانی نے انہی شعراء کے وہ اشعار منتخب کیے ہیں جو اردو روایت سے قریب تر ہیں۔ فانی نے "چہار عکس” میں غنی کاشمیری پر جو عظیم کام کیا ہے، اس پر جتنا بھی داد دی جائے کم ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں فانی بیدل پر بھی کام کریں گے۔
جناب طاہر الاسلام عسکری نے بھی فانی کے کام کو سراہا اور کہا کہ اردو میں منظوم ترجمے کے یہ ایک نئی اور دل آویز روایت ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ جان عابد نے مقررین کی آراء پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے مقررین نے بہت عمدہ باتیں کیں مگر ایک نکتہ رہ گیا اور وہ یہ کہ پشتو ادب میں سبک ہندی کی روایت تین سو سے ساڑھے تین سو سال پرانی ہے، جس کے بنیاد گزار عبدالحمید ماشوخیل ہیں اور سبک ہندی کو کمال تک پہنچانے میں کاظم خان شیدا نے ہے، اور آج مفتی فانی نے اسے نئے اسلوب میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں اس کام پر ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
جناب مظفر علی کشمیری نے کہا کہ ایک دن پہلے ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے مجھے یہ خوشخبری دی تھی کہ ایک نوجوان پختون نے یہ شاندار کام کیا ہے اور کل ہی انہوں نے کتاب بھیجی جسے میں نے مکمل تو نہیں پڑھا مگر جتنا پڑھا ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ مفتی فضل اللہ فانی اب فانی نہیں ہے بلکہ لافانی شخصیت مالک بن گئےہیں۔
تقریب کے اختتام پر مفتی فضل اللہ فانی نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ پاکستاني زبانیں، ڈاکٹر ساحر، ڈاکٹر عابد، شرکاء اور مقررین کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ کراچی میں اردو زبان کے شاعر جناب عظیم راہی جنہیں میں استاد مانتا ہوں میرے دوست فارسی اشعار دیا کرتے تھے کہا اس کا اردو مفہوم اپنے استاد سے لکھ کر لائے میں اس کا منظوم اردو ترجمہ کرتا ہوں تو یہ منظوم ترجمے کے گر میں نے اس سے سیکھا ہے ۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر فارسی اشعار ملتے تو میں ان پر منظوم ترجمہ کمنٹس میں لکھ دیتا اور یوں بیدل و صائب کی کئی غزلوں کا منظوم ترجمہ کیا ہوا ہے ممتاز شاعر ادیب دانشور احمد جاوید صاحب نے میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ ان چاروں شعرا کے سو سو اشعار منتخب کرو۔ اس انتخاب میں ہم نے کوشش کی کہ موضوعاتی حوالہ سے اس تنوع ہو ۔
فضل اللہ فانی نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی دین فیکلٹی آف سوشل سائنس ڈاکٹر عبد العزیز ساحر چیرمین شعبہ پاکستانی زبانیں ڈاکٹر عبداللّٰہ جان عابد مقررین سامعین کا شکریہ ادا کیا کہ چہار عکس کے حوالےسے میری پزیرائی کی۔
ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنس نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ترجمہ نہایت مشکل کام ہے جیسا کہ ایک صوفی اپنے ذات کی نفی کرتا ہے اسی طرح مترجم بھی اپنی تخلیقی جوہر پس پشت ڈال کر جس کا ترجمہ کرتا ہے اس کے ذات میں محو ہوجاتا ہے ان کی تخلیقات میں چھپے ہوۓ لعل و جواہر ترجمے کے ذریعے ہم تک پہنچاتا ہے کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عابد نے مجھے کہا تھا کہ صوابی کا ایک نوجوان ایسا کارنامہ انجام دے چکا ہے۔
اس وقت میں اسلام آباد سے باہر دوسرے دن جب یونیورسٹی آیا تو ڈاکٹر عابد نے چہار عکس دیا پڑھنے سے معلوم ہوا کہ مفتی فضل اللہ فانی نہیں ہے مظفر علی کاشمیری نے بجا فرمایا اس کام نے اسے لافانی ہے بنایا۔ ڈاکٹر ساحر نے کہا ہے کہ فانی نے اس ترجمے میں جو اردو روایت اپنایا اس کا مثل اگر اردو ادب میں ہے تو کوئی سامنے لاۓ۔ انہوں نے کہا اس کتاب کی تقریب رونمائی کا اہتمام صوابی میں ہوئی تھی لیکن میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے آج کا یہ پروگرام اس کا کفارہ ہے جو ادا ہوا۔
اس موقع پر مفتی فضل اللہ فانی کو یادگاری شیلڈ اور گلدستہ پیش کیا گیا اور گروپ فوٹو ہوئے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ضیاءالرحمان بلوچ نے ادا کیے اور صدارت میں ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر عبداللہ جان عابد، مظفر علی کشمیری اور مفتی فضل اللہ فانی شامل تھے۔ آخر میں چائے کی محفل ہوئی اور پھر رخصت ہوگئے ہے۔