لیبرل معاشرہ بمقابلہ عسکری پیشہ ورانہ نظم — ایک نظریاتی تسلسل

امریکی سیاسی ارتقا ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں ایک گہرا لیبرل معاشرہ، ایک نہایت قدامت پسند آئینی نظام، اور ایک طاقتور و انتہائی پیشہ ور فوجی ادارہ ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ آزادی اور نظم، فرد کی خود مختاری اور ریاستی قوت، طاقت پر شک اور قومی دفاع کی ضرورت—ان تمام کشمکشوں کا ملاپ امریکی سول–ملٹری تعلقات کا بنیادی نظریاتی تسلسل بن جاتا ہے۔ امریکہ کی پیدائش سے لے کر آج کی عالمی مداخلتوں کے دور تک یہ توازن طاقت بھی رہا ہے اور تضاد بھی۔

امریکی لبرل ازم کی جڑیں یورپ میں پیوست ہیں۔ انگلستان کے تاریخی تجربات—میگنا کارٹا، گلورئیس ریولوشن، اور جان لاک کا سیاسی فلسفہ—یہ سبق دیتے تھے کہ طاقت کو حقوق، نمائندگی اور ادارہ جاتی تقسیم کے ذریعے محدود کرنا ضروری ہے۔ امریکی آبادکاروں نے ان خیالات کو آگے بڑھایا، انہیں پُرٹین شہری روایت، سرحدی انفرادیت اور برطانوی ورثے میں ملنے والی ’کھڑی فوج‘ کے خوف کے ساتھ ملا دیا۔ یورپ میں لبرل ازم بادشاہت اور اشرافیہ کے خلاف بغاوت تھا؛ امریکہ میں یہ مکمل معاشرتی ڈھانچے کی شکل اختیار کر گیا، جہاں شخصی، سیاسی اور معاشی آزادی بنیادی قدر بن گئی۔ اسی لیے امریکی معاشرہ طاقت کے ان اداروں پر فطری طور پر شکوک رکھتا ہے جو مرکوز طاقت پیدا کرتے ہیں—خصوصاً بڑی فوجیں۔

لیکن اس کے باوجود 1787ء کا امریکی آئین اپنی ساخت میں لبرل نہیں بلکہ سخت حد تک قدامت پسند ہے۔ آئین کو شعوری طور پر اس طرح بنایا گیا کہ سیاست سست رہے، عوامی جذباتی فیصلوں کا راستہ رکا رہے، اور کوئی بھی ادارہ مطلق العنان نہ بن سکے۔ چیکس اینڈ بیلنس، دو ایوانی مقننہ، عدالتی نظرثانی، وفاقیت، اور ترمیم کے مشکل طریقہ کار نے ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا جس میں آزادی کو ‘کھلی ریاست’ کے ذریعے نہیں بلکہ ‘ادارہ جاتی سختی’ کے ذریعے محفوظ رکھا گیا ہے۔ لیبرل فرد زیادہ سے زیادہ سماجی، سیاسی اور شخصی آزادی کا خواہاں ہے، مگر امریکی نظام ہر ادارے—کانگریس، صدر اور سپریم کورٹ—کو دوسرے کے اوپر ایک مستقل روک بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت کا عملی چلن مکمل لیبرل نہیں بلکہ حد درجہ منضبط اور ایک دوسرے پر نگرانی رکھنے والا ہے۔

آئینی قدامت پسندی نے براہِ راست امریکی فوجی روایت کو متاثر کیا۔ انقلابِ امریکہ کے بعد Continental Army کو جان بوجھ کر تحلیل کر دیا گیا۔ امریکی معاشرہ یورپی طرز کی مستقل فوجوں سے خوفزدہ تھا، انہیں یقین تھا کہ ایسی فوجیں بالآخر آمریت پیدا کرتی ہیں۔ ابتدائی امریکہ نے دفاع کے لیے ملیشیا پر تکیہ کیا—ایسے عام شہری سپاہی جو مقامی شناخت رکھتے تھے اور طاقت کو مرکز کے بجائے مقامی سطح تک محدود رکھتے تھے۔ طویل عرصے تک امریکی فوج چند ہزار سپاہیوں پر مشتمل رہی۔ حتیٰ کہ خانہ جنگی کے بعد بھی یہ یورپی فوجوں سے کئی گنا چھوٹی تھی۔ بانیانِ امریکہ ایسی فوج چاہتے تھے جو ریاست کی حفاظت تو کرے لیکن معاشرے پر حاوی نہ ہو۔

مگر عالمی حالات نے جلد ہی اس سوچ کو بدلنے پر مجبور کیا۔ ہسپانوی–امریکی جنگ، پہلی عالمی جنگ اور خصوصاً دوسری عالمی جنگ نے امریکہ کو ایک بڑی، منظم، پیشہ ور فوج بنانے پر مجبور کر دیا۔ 1945ء تک امریکہ کے پاس بارہ ملین سے زیادہ فوجی اہلکار موجود تھے—جو بانی رہنماؤں کی سوچ سے بہت آگے کی بات تھی۔ سرد جنگ نے اس فوجی ڈھانچے کو مستقل شکل دے دی، نیشنل سکیورٹی کونسل بنی، اور مستقل دفاعی اسٹیبلشمنٹ وجود میں آئی۔ پھر بھی سوال وہی رہا: ایک ایسی فوج کو کیسے برقرار رکھا جائے جو پیشہ ور بھی ہو اور لیبرل معاشرے کی آزادیوں پر چھائی بھی نہ رہے؟

ملیشیا کے دور سے آج کے ٹیکنالوجی سے لیس عالمی فوجی نظام تک، امریکی فوج دنیا کی سب سے منظم اور پیشہ ور ترین اداروں میں شمار ہوتی ہے—مہارت، اطاعت، ترتیب، تنظیمی نظم اور ایک مشترکہ شناخت اس کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ یہ فوج عالمی جنگوں، بغاوتوں، امن مشنز اور عالمی پولیسنگ کارروائیوں میں حصہ لے چکی ہے۔ مگر اس تمام طاقت کے باوجود امریکی فوج ہمیشہ سول اختیار کی تابع رہی ہے۔ گرانٹ سے آیزن ہاور تک، میک آرتھر سے پیٹریئس تک—کسی جنرل نے کبھی حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ آئینی نظم کا براہِ راست نتیجہ ہے۔

یہ تمام حقیقتیں مل کر ایک حیران کن تضاد کو جنم دیتی ہیں: ایک معاشرہ جو فرد کی آزادی، خود مختاری اور کم سے کم جبر کا خواہاں ہے، وہ اپنی بقا کے لیے ایک ایسے ادارے پر انحصار کرتا ہے جو نظم، اطاعت، سخت درجہ بندی اور قوت پر قائم ہے۔ ایک قوم جو مرکزیت سے ڈرتی ہے، وہ اپنی حفاظت کے لیے ایک طاقتور، عالمی فوج پر انحصار کرتی ہے۔ یوں ایک ’لیبرل قوم‘ اپنی حفاظت ایک ’غیر لیبرل پیشے‘ کے حوالے کرتی ہے۔ یہ تضاد نظام کو توڑتا نہیں—اسے قائم رکھتا ہے۔ فوج تحفظ دیتی ہے، آئین توازن فراہم کرتا ہے، اور معاشرہ آزادی بخشتا ہے—ہر قوت دوسری قوت کو حدود میں رکھتی ہے۔

آج بھی امریکی سیاسی مباحث اسی تسلسل کی عکاسی کرتے ہیں۔ لبرلز نگرانی والی ریاست، پولیس اختیارات اور عالمی عسکری مداخلتوں پر تنقید کرتے ہیں؛ قدامت پسند قومی سلامتی کو اولین رکھتے ہیں؛ عدالتیں آزادی اور نظم کے درمیان حدود مقرر کرتی ہیں؛ اور فوج اپنی پیشہ ور غیر سیاسی حیثیت کو بچاتے ہوئے سیاسی طوفانوں سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

آخر میں جو ماڈل ابھرتا ہے وہ بظاہر تضاد مگر عملی طور پر مکمل ہے: ایک لیبرل معاشرہ توانائی اور تخلیقی قوت پیدا کرتا ہے؛ ایک قدامت پسند آئین اس آزادی کو نظم میں رکھتا ہے؛ اور ایک پیشہ ور فوج پوری ریاستی عمارت کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہی امریکی تضاد ہے—زیادہ سے زیادہ آزادی، زیادہ سے زیادہ ضابطوں کے ساتھ؛ ایک لیبرل معاشرہ، ایک قدامت پسند آئین اور ایک پیشہ ور فوج کے باہمی توازن پر قائم۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے