محنت کا سفر: کامیابی کی منزل

پشاور کے ایک عام سے محلے میں رہنے والے ایک خاندان کے پاس زندگی گزارنے کے بہت ہی محدود ذرائع تھے۔ قسمت کی سختی یہ تھی کہ نائلہ بی بی کے شوہر شدید بیمار پڑ گئے۔ اچانک ان کے دونوں گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ جو برسوں تک اپنے گھر کا سہارا بنے تھے ایک لمحے میں ہی اپنے خاندان کو روزی دینے کے قابل نہ رہے۔ پہلے ہی تنگ دستی میں گزر بسر کرنے والے اس آٹھ افراد پر مشتمل گھرانے پر یہ صورتحال کسی پہاڑ گرنے کے مترادف تھی۔ ایسے کڑے وقت میں نائلہ بی بی کو اندازہ ہوا کہ اب انہیں خود ہی اپنے گھر کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی مگر سوال یہ تھا کہ آمدنی کا ذریعہ کسے بنایا جائے؟ کہاں سے شروعات کی جائے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس مشکل راستے پر ہمت کیسے برقرار رکھی جائے؟

انہیں دنوں میں جب ہر طرف اندھیرا محسوس ہو رہا تھا نائلہ بی بی نے ایک بڑا فیصلہ کیا۔ گھر میں جو چند تولے زیور سالوں سے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے انہوں نے بھاری دل کے ساتھ وہ زیور بیچ دیے تاکہ کچھ سرمایہ ہاتھ میں آ سکے۔ یہ فیصلہ آسان ہرگز نہ تھا لیکن انہیں یقین تھا کہ اگر ان کی محنت سچی ہوگی تو یہی سرمایہ ان کے گھر کی نئی بنیاد بن سکتا ہے۔

اسی سرمایہ کی بدولت نائلہ بی بی نے اپنے علاقے میں ایک چھوٹی سی دکان کھولنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دکان ان کے خوابوں کا پہلا قدم تھا لیکن شروع میں یہ سفر کوئی آسان بھی نہیں تھا۔ انہیں اپنے چھ بچوں اور بیمار شوہر کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ نئے کاروبار کو چلانے کے لیے دن رات ایک کرنا پڑا۔ ابتدا میں آمدنی کم تھی نائلہ کے ساتھ گھر والوں کی مسلسل حوصلہ افزائی ان کا عزم اور ان کی محنت نے آہستہ آہستہ کاروبار کو مضبوط کرنا شروع کردیا۔ وقت کے ساتھ دکان کی آمدنی بہتر ہوئی گھر کے حالات سدھرنے لگے بچوں کی تعلیم دوبارہ شروع ہوئی اور شوہر بھی علاج کی بدولت بہتر ہونے لگے۔

صرف ایک سال کی مسلسل کاوشوں نے نائلہ بی بی کی دنیا بدل دی۔ وہ اب ایک بڑی دکان کی مالکن ہے ان کے ساتھ چار ملازمین بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا کاروبار پھیلنے لگا گاہک بڑھنے لگے اور وہ اپنی دکان میں مزید نئی مصنوعات شامل کرنے کے منصوبے بنانے لگی ہے۔ انہوں نے اپنی سلائی اور کڑھائی کی مہارت کو بھی کاروبار کا حصہ بنایا اور ہاتھ کی بنی نفیس کڑھائی والے کپڑوں کی فروخت شروع کر دی جس سے ان کی آمدنی اور بھی بہتر ہونے لگی ہے۔ اس طرح وہ اپنے خاندان کو سنبھال رہی ہے ساتھ ہی اپنے کاروبار کے ذریعے چار دیگر گھروں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن گئی ہیں۔

نائلہ بی بی ان بے شمار خواتین میں سے ایک مثال ہیں جنہوں نے زندگی کی سخت ترین گھڑی میں ہار ماننے کے بجائے اپنی طاقت کا سراغ خود تلاش کیا۔ انہوں نے یہ بات ثابت کی کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو وسائل کی کمی بھی راستہ نہیں روک سکتی۔ آج وہ اپنے عزم اور محنت کے بل پر دوسروں کے لیے امید کا چراغ بن چکی ہیں۔

میں نے نائلہ بی بی سے کہا کہ آپ خواتین کو کیا پیغام دینا چاہوں گی تو انہوں نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ: میں نے اپنی زندگی میں ایک بات بہت گہرائی سے سیکھی ہے کہ عورت خود کو کمزور سمجھ لے تو دنیا بھی اسے کمزور ہی سمجھتی ہے۔ اگر وہ ایک بار اپنے اندر کی قوت کو پہچان لے تو پھر کوئی مشکل اسے آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔ وہ چند تولے سونا ہی میرے بچوں کے مستقبل کی بنیاد بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ: اگر آپ کسی مشکل میں ہیں تو گھبرا کر بیٹھ نہ جائیں آپ کے اندر وہ طاقت موجود ہے جو حالات کا رخ بدل سکتی ہے۔ بس پہلا قدم اٹھانے کی ہمت کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ: آج کے دور میں اپنا ذاتی کاروبار عورت کے لیے بہترین آمدنی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ بااختیار ہونے کا پہلا دروازہ ہے۔ گھر بیٹھے چھوٹا سا کام جیسا کہ سلائی، کڑھائی، باقی ہاتھ سے بنی ہوئی چیزیں اسی طرح کھانے کی اشیاء مثلاً: بیکری کی اشیاء یا بریانی، کباب، گوشت کڑھائی، چاٹ، دہی بھلے، سبزی، خشک سبزی وغیرہ ان سب کے لیے ہوٹلز، دکانداروں کے ساتھ ٹیکا لگائیں اور خواتین گھر پر تیار کر کے ان کو سیل کرتی جائے۔ ان کاموں کے لیے تعلیم کے بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے اس لیے جو ان پڑھ خواتین ہیں وہ پریشان ہونا چھوڑ دیں۔

میں ہر بہن کو یہی نصیحت کرتی ہوں کہ حالات کا انتظار مت کریں خود وہ قدم بڑھائیں جو آپ کی زندگی بدل سکتا ہے۔ چاہے آپ کے پاس مہارت ہو، کوئی فن ہو، یا ایک خواہش بس شروعات کریں۔ چھوٹا سا کاروبار بھی ایک دن بڑے درخت کی طرح پھل دیتا ہے۔ اپنی محنت پر یقین رکھیں اور یہ سمجھیں کہ موجودہ دور میں اپنا ذاتی کاروبار ہی سب سے آسان محفوظ اور باعزت راستہ ہے۔ میں نے اپنے لیے یہ راستہ چنا اور آپ بھی چاہیں تو اپنی پوری زندگی بدل سکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے