شرم الشیخ کے پرسکون ساحلوں پر ایک ماہ قبل دنیا نے ایک بار غزہ و فلسطین کے محکوم و مظلوم باسیوں کے لیے اُمید کی کرن محسوس کی۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ غزہ امن سربراہی کانفرنس میں 13 اکتوبر کو وہ تاریخی غزہ امن معاہدہ طے پایا جسے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے دور کا نقیب قرار دیا گیا۔ امریکہ، مصر، قطر، پاکستان اور ترکیہ کے سربراہانِ مملکت کی موجودگی نے اس کانفرنس کو غیر معمولی اہمیت عطا کی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گفتگو نے کانفرنس کے ماحول میں ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اگر عالمی طاقتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو خونِ فلسطین کی دھارا روکی جاسکتی ہے۔
صدر ٹرمپ اور وزیراعظم پاکستان نے اپنی گفتگو میں کہا کہ طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کی جانب ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور مسلم ممالک کی خصوصی توجہ، محنت اور جستجو کے بغیر غزہ میں جاری قتل و غارت گری کا رکنا ممکن نہ تھا۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے معاہدے کو فلسطینی عوام کے لیے امید کی کرن قرار دیا اور کہا کہ یہ قدم پائیدار امن کی بنیاد ڈالے گا۔ کانفرنس کے دوران امریکی صدر ٹرمپ، مصری صدر السیسی، امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے عالمی رہنماؤں کی موجودگی میں اس تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔
صدر ٹرمپ نے اس موقع پر ترکیہ، مصر، پاکستان اور قطر سمیت دیگر دوست ممالک کے قائدین کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور اسے ’غزہ کی تعمیرِ نو اور ترقی کی سمت ایک سنگِ میل قرار دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اب معاہدے کے بعد غزہ میں امن بحال ہوگا، تعمیر نو کا عمل شروع ہوگا اور خطہ بالآخر ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکے گا۔
لیکن سوال یہیں سے جنم لیتا ہے:
کیا اس معاہدے پر واقعی مکمل عمل درآمد ہوا؟
کیا اسرائیل نے وعدے کے مطابق غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلالیں؟
کیا امدادی سامان کی بلا روک ٹوک ترسیل ممکن ہوئی؟
کیا مظلوم فلسطینیوں نے سکون کا ایک دن دیکھا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لینے پر نہایت تلخ محسوس ہوتے ہیں۔ کیونکہ زمینی حقائق کسی اور رخ کی کہانی سناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شرم الشیخ میں اٹھنے والی امید کی یہ شمع زیادہ دیر روشن نہ رہ سکی۔ غزہ امن معاہدے کے اعلان کے چند ہی روز بعد 17 اکتوبر کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر اپنی ہٹ دھرمی اور شدت پسندانہ سوچ کا کھلا اظہار کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیلی کابینہ کے دائیں بازو وزراء نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں پیش کی جانے والی قرارداد پر سخت تحفظات کا اظہار کیا، جس کے بعد نیتن یاہو نے کابینہ اجلاس میں انہیں یقین دلایا کہ اسرائیلی پالیسی میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ یاہو نے واضح الفاظ میں کہا کہ چاہے دنیا کا دباؤ ہو یا اسرائیل کی داخلی سیاست کا شور، وہ دہائیوں سے جاری فلسطینی ریاست کی مخالفت میں کوئی نرمی نہیں برتیں گے۔ ان کے مطابق اسرائیل کا مؤقف آج بھی وہی ہے جو کل تھا، اور یہی مؤقف مستقبل کا تعین کرے گا۔ حماس کے حوالے سے ان کا سخت لہجہ ایک بار پھر سامنے آیا، جہاں انہوں نے کہا کہ آسان ہو یا مشکل، غزہ کی منتخب مزاحمتی قوت کو ہر حال میں غیر مسلح کیا جائے گا۔ گویا امن معاہدے کے پیچھے چھپی اصل سوچ خود اسرائیلی ظالم حکمرانوں نے بے نقاب کر دی۔
نتین یاہو کی مسلسل ہٹ دھرمی اور امن معاہدے سے روگردانی کے اثرات بے بس، بے گھر اور جنگ زدہ فلسطینی مظلومین پر پڑ رہے ہیں۔ موسمِ سرما کی پہلی بارش نے غزہ کے زخموں پر جیسے نمک چھڑک دیا ہو۔ بارش کے ساتھ آنے والی یخ بستہ ہوائیں پناہ گزینوں کے خیموں میں گھس گئیں اور ہزاروں خیمے پانی میں ڈوب کر رہ گئے۔ لاکھوں بے گھر فلسطینی کھلے آسمان تلے اس شدید سرد موسم میں امداد کے منتظر ہیں، مگر اسرائیل نے ایک بار پھر خیموں سمیت دیگر ضروری امدادی سامان کی غزہ آمد روک کر انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ گیلے خیموں میں سہمے ہوئے بچے، بیمار بزرگ اور بے سروسامان خاندان ہاتھ اٹھائے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
غزہ میں بارش کے پانی کو روکنے کا کوئی بندوبست نہیں۔ فلسطینیوں نے اپنے خیموں کے گرد گڑھے کھود کر پانی کا رخ موڑنے کی کوشش شروع کر دی ہے، لیکن مستقل بارش اور سردی نے ان کی مشکلات کا ازالہ نہیں ہونے دیا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کا کہنا ہے کہ 13 لاکھ فلسطینیوں کے لیے موجود امدادی سامان اسرائیل نے روکے رکھا ہے، حالانکہ خراب موسم میں اس امداد کی فراہمی پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو چکی ہے۔ تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لینے والے لوگوں کو ان عمارتوں کے مزید منہدم ہونے کا خطرہ لاحق ہے، اور یہ خطرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں بھی ختم نہیں ہو رہیں، جو ثابت کرتی ہیں کہ امن کا بیانیہ صرف عالمی پلیٹ فارمز تک محدود ہے جبکہ زمینی حقیقت مسلسل خون، ملبے اور بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت جیسے ادارے فلسطین کے مظلوم و محکوم بچوں ، بزرگوں و خواتین کے لیے بے بس نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں میں یا عالمی سطح پر کوئی بھی ادارہ یا ملک انصاف اور امن کا خواہاں ہے تو فی الفور امدادی سامان کھول دیا جائے، غزہ کے حقیقی نمائندوں کو غزہ کی قیادت و نمائندگی دی جائے۔ غزہ میں جاری تاریخ کے بدترین مظالم کو فی الفور بند کروایا جائے۔ نیز، اقوامِ متّحدہ کے امن مشن کے اہل کار ظالم اسرائیلی افواج کو نہ صرف فلسطینی سرزمین سے نکال باہر کریں بلکہ عالمی عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیے گئے اِن ظالموں کو پابندِ سلاسل کیا جائے۔
علاوہ ازیں، فلسطینی بچّوں کو نشانہ بنانے والے صیہونی فوجیوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ یادرہے، اگراقوامِ متّحدہ اورعالمی طاقتیں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر جنگ زدہ علاقوں کے شہریوں کا درد و الم محسوس کرکے اُنہیں جانی و مالی تحفّظ سمیت اُن کے بنیادی انسانی حقوق فراہم کریں گی، تو ہی دنیا میں حقیقی معنوں میں امن قائم ہوگا۔ یہاں یہ اَمربھی قابلِ ذکر ہے کہ کسی ایک مُلک میں جاری جنگ پوری عالمی معیشت کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا، امن کا قیام کسی ایک مُلک کی ضرورت نہیں بلکہ اس سے پوری انسانیت کا مفاد وابستہ ہے۔