اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حالیہ ہفتوں میں پیش آنے والے آف لوڈنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات نے نہ صرف متاثرہ مسافروں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ ملک کے قانونی سفری نظام پر بھی سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایسے درجنوں پاکستانی، جن کے پاس مکمل قانونی دستاویزات، ورک پرمٹس، آجر کے خطوط اور درست ٹکٹ موجود ہوتے ہیں، صرف ایک مبہم اعتراض یا خاموش اشارے پر ان کے سفر سے روک دیے جاتے ہیں۔ ایئرپورٹ کے ویٹنگ لاؤنچز ایسے مسافروں سے بھرے رہتے ہیں جو برسوں کی بچت اور گھر والوں کی قربانیوں کے باوجود ایک امیگریشن اہلکار کی ہٹ دھرمی کا شکار بن جاتے ہیں۔
متاثرہ مسافروں کے مطابق پہلی بار بیرون ملک سفر کرنے والوں کے ساتھ سب سے زیادہ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی کوئی فرد یہ بتائے کہ وہ پہلی مرتبہ بیرون ملک جا رہا ہے، اسے مشکوک سمجھ کر روکا جاتا ہے، چاہے اس کے پاس ہر وہ دستاویز موجود ہو جس کی امیگریشن قوانین میں ضرورت بیان کی گئی ہے۔ کچھ افراد نے اعتراف کیا ہے کہ اہلکار واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ “آپ باہر جا کر ڈنکی لگائیں گے”، مگر جب یہی مسافر طریقۂ کار کے بجائے بھاری رقم ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو ساری مشکلات لمحوں میں حل ہو جاتی ہیں۔ شواہد اور گواہیوں میں ایک سے دو لاکھ روپے تک کے مطالبات معمول کی بات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ کا اصل نیٹ ورک—جو بلوچستان کے راستوں، ایرانی بارڈرز، ترکی کے ٹرانزٹ پوائنٹس اور لیبیا کی ساحلی حدود کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کو غیر قانونی راستوں سے باہر بھیجتا ہے—وہ بدستور سرگرم ہے۔ روزانہ ایسی ویڈیوز اور رپورٹس سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں جن میں درجنوں پاکستانی ان خطرناک راستوں میں مارے جاتے ہیں، پھنس جاتے ہیں یا تشدد کا شکار ہوتے ہیں، مگر اس پورے نیٹ ورک کے حقیقی سرغنوں تک ریاست کی رسائی آج تک نہیں ہو سکی۔ اس کے برعکس، ایئرپورٹ کے قانونی راستے سے باہر جانے والا نوجوان سب سے آسان شکار بن جاتا ہے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال پہلے ہی تباہ کن حد تک غیر مستحکم ہے۔ اجرتیں 20 سے 25 ہزار روپے سے آگے نہیں بڑھتیں، مہنگائی عروج پر ہے، روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، اور روپے کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے۔ ایسے میں نوجوانوں کے لیے بیرون ملک روزگار تلاش کرنا ایک مجبوری بن چکا ہے، مگر جب ایئرپورٹس پر ہی ان کے راستے بند کر دیے جائیں تو یہ حالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔
جیسا کہ ایک متاثرہ نوجوان نے کہا، “جب ملک میں 25 ہزار میں گھر کا چولہا نہیں جلتا، تو ہم بیرون ملک جا کر محنت کرنا چاہتے ہیں، مگر یہاں تو مستقبل کے دروازے ہی بند کر دیے گئے ہیں۔”
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا سہارا اوورسیز پاکستانی ہیں۔ گزشتہ برس تقریباً *38 ارب ڈالر* ریمیٹنسز آئیں، جو کہ پاکستان کی مجموعی *32 ارب ڈالر* کی برآمدات سے بھی زیادہ ہیں۔ یعنی اوورسیز پاکستانی نہ صرف محنت کرتے ہیں بلکہ ملک کی اصل معاشی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ انہی کی محنت سے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر قائم رہتے ہیں، روپے کی قدر مکمل تباہ ہونے سے بچتی ہے، امپورٹس ممکن ہوتی ہیں، حکومتی اخراجات چلتے ہیں اور لاکھوں گھر مستحکم رہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ بیرون ممالک میں پاکستان کے سفیر کا کردار بھی ادا کرتے ہیں—تجارت، سرمایہ کاری، روابط اور عالمی سطح پر ملک کی شناخت کو بہتر بناتے ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ جن پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی سے ملک چل رہا ہے، انہی کو ایئرپورٹ پر رسوا کیا جاتا ہے۔ متاثرہ مسافروں کی ویڈیوز، چیخ و پکار اور شکایات اب عالمی پلیٹ فارموں تک بھی پہنچ رہی ہیں، جس سے پاکستان کی امیگریشن سروسز کی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ خود ایئرلائن اسٹاف بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ آف لوڈنگ کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور متعدد بار بغیر کسی واضح قانونی جواز کے مسافروں کو روک دیا جاتا ہے۔
اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو اوورسیز پاکستانیوں میں غم و غصہ مزید بڑھے گا، جس کے نتیجے میں نہ صرف ریمیٹنسز میں کمی آئے گی بلکہ پاکستان کا عالمی امیج بھی مزید خراب ہوگا۔
عوامی حلقوں میں چند اہم سوالات تیزی سے شدت اختیار کر رہے ہیں:
* کیوں انسانی اسمگلنگ روکنے کے نام پر قانونی مسافروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
* اصل ڈنکی مافیا کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہونے کے برابر ہے؟
* آف لوڈنگ کے فیصلے بغیر وضاحت اور شفافیت کے کیوں کیے جاتے ہیں؟
* رشوت کی شکایات کب ختم ہوں گی؟
* پہلی بار سفر کرنے والوں کے لیے واضح پالیسی کیوں تشکیل نہیں دی جارہی؟
حکومت اگر واقعی یہ بحران حل کرنا چاہتی ہے تو فوری اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس میں شامل ہونا چاہیے:
1. غیر ضروری آف لوڈنگ پر فوری پابندی
2. ہر آف لوڈنگ کی تحریری وجہ مسافر کو دینا
3. امیگریشن اہلکاروں کے اندرونی احتساب کا مؤثر نظام
4. اصل انسانوں کی اسمگلنگ مافیا کے خلاف بھرپور کارروائی
5. پہلی بار سفر کرنے والوں کے لیے آسان اور شفاف SOPs
6. اوورسیز پاکستانیوں کے لیے خصوصی سہولت ڈیسک
یہ ملک انہی محنت کشوں کی بدولت قائم ہے جو باہر جا کر دن رات جدوجہد کرتے ہیں، پیسہ کما کر وطن بھیجتے ہیں اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ساتھ پوری قومی معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔ مگر ایئرپورٹ پر ان کے ساتھ ہونے والی تذلیل نہ صرف ان کے عزم کو کمزور کر رہی ہے بلکہ ملک کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔
ریاست اگر اپنے شہریوں کو عزت، سہولت اور انصاف دینے میں ناکام رہے تو ترقی محض خواب ہی رہے گی۔ اب فیصلہ حکومت نے کرنا ہے—کیا وہ اوورسیز پاکستانیوں کو قوم کا سرمایہ سمجھے گی یا ایئرپورٹ پر بے بسی کی تصویر بنتے ہوئے ایک اور ہجوم؟