جامعہ خیر المدارس ملتان — تاریخ، خدمات اور اثرات

ملتان کا سفر میرے لئے اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں جامعہ خیر المدارس نہ جاؤں۔ تقریباً پینتیس، چھتیس سال پہلے میں نے یہاں اعتکاف کیا تھا، اور اس زمانے کی روحانی فضا آج بھی دل میں تازہ ہے۔ اس مرتبہ بھی دل میں یہی خواہش تھی کہ ضرور حاضری دوں۔ اللہ نے موقع عطا فرمایا، جامعہ پہنچا تو مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب سے ملاقات ہوئی، اور اُن کے صاحبزادے مولانا احمد حنیف جالندھری نے نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ مجھے پورے جامعہ کا تفصیلی دورہ کرایا۔ ان لمحات کی داستان ان شاء اللہ پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا، لیکن فی الحال جامعہ کی تاریخ اور خدمات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

جامعہ خیر المدارس کی بنیاد 9 مارچ 1931ء کو جالندھر (بھارت) میں رکھی گئی۔ اس عظیم دینی درسگاہ کے بانی حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ تھے جو شیخ الحدیث بھی تھے، معتبر فقیہ بھی اور اکابرِ دیوبند کے نہایت ممتاز شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔ جامعہ کی بنیاد مولانا اشرف علی تھانویؒ کی دعا اور خصوصی ہدایت پر رکھی گئی تھی۔ ابتدا میں یہ ایک چھوٹا سا علمی مرکز تھا لیکن چند ہی برسوں میں پورے علاقے کا نمایاں دینی ادارہ بن چکا تھا۔

تقسیمِ برصغیر کے ہنگامہ خیز دور نے بہت سے علمی مراکز کو بے گھر کیا اور انہی حالات کے باعث جامعہ خیر المدارس کو بھی جالندھر سے ہجرت کرنا پڑی۔ 8 اکتوبر 1947ء کو یہ ادارہ ملتان میں دوبارہ قائم کیا گیا۔ ہجرت کے دوران شدید مشکلات اور قلیل وسائل کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس درسگاہ کو دوبارہ کھڑے ہونے کی توفیق دی، اور جلد ہی یہ جنوبی پنجاب کے بڑے دینی مراکز میں شامل ہو گیا۔

ملتان منتقل ہونے کے بعد جامعہ میں تعمیرات اور توسیع کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا۔ جامع مسجد خیر المدارس کی تعمیر 1961ء میں شروع ہوئی اور 1967ء میں مکمل ہوئی۔ ملتان منتقل ہونے کے بعد جامعہ میں تعمیرات اور توسیع کا سلسلہ جاری رہا۔ جامع مسجد خیر المدارس کی پہلی تعمیر 1961ء میں شروع ہوئی اور 1967ء میں مکمل ہوئی۔ بعد ازاں مسجد کی نئی عمارت کا طویل منصوبہ شروع کیا گیا جو تقریباً دس سال کی محنت کے بعد مکمل ہوا۔ اس نئی مسجد کا افتتاح 7 فروری 2025ء (8 شعبان 1446ھ) کو ہوا اور اس کی مجموعی لاگت تقریباً چالیس کروڑ روپے رہی۔ مسجد کا ڈھانچہ جدید انداز میں تیار کیا گیا ہے جس میں اسلامی فنِ تعمیر اور ملتان کی مقامی تہذیبی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس کا سفید مرمریں گنبد اور دو بلند مینار عمارت کو نمایاں بناتے ہیں، جبکہ مسجد کی گنجائش تقریباً سات ہزار نمازیوں پر مشتمل ہے۔

نئی مسجد دو منزلوں پر مشتمل ہے—ایک بیسمنٹ اور ایک گراؤنڈ فلور—جن میں مرکزی ہال ہشت پہلو ڈیزائن پر بنائے گئے ہیں اور دونوں منزلوں کے گرد خوبصورت دائروی برآمدے تعمیر کیے گئے ہیں۔ بیسمنٹ میں تقریباً چھ ہزار مربع فٹ کا سنکن ایریا بنایا گیا ہے، جبکہ پوری مسجد تقریباً سینتیس ہزار مربع فٹ رقبے پر قائم ہے۔ مسجد کے ساتھ مہمان خانہ، کتب خانہ، خانقاہ اور ایک کثیر المقاصد ہال بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس پوری تعمیر میں مضبوطی، مؤثر استعمالِ جگہ اور خوبصورتی جیسے اصولوں کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا گیا، اور ڈیزائن تیار کرتے وقت ملتان کے روایتی فنِ تعمیر کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ آج یہ مسجد ملتان کی تاریخی اور مرکزی مساجد میں شمار ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جامعہ نے دارالاقامہ، دارالحدیث، دارالافتاء، جدید طرز کے کمروں اور دیگر متعدد شعبوں میں نہایت منظم انداز میں توسیع کی، جس سے یہ ادارہ ایک وسیع و عریض علمی مرکز کی شکل اختیار کر گیا۔

حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ نہ صرف اس ادارے کے بانی تھے بلکہ علمِ حدیث اور فقہ میں بھی غیر معمولی مقام رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ جامعہ میں کئی نامور شخصیات نے تدریسی خدمات سرانجام دیں جن میں مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا عبدالرؤف جالندھری اور مولانا معین الدین لکھوی نمایاں ہیں۔ ان بزرگوں نے نہ صرف ملتان بلکہ پورے برصغیر میں حدیث، فقہ اور علومِ اسلامیہ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

جامعہ خیر المدارس میں علومِ دینیہ کی وہ مکمل ترتیب موجود ہے جو ہمیشہ برصغیر کی دینی روایت کا حصہ رہی ہے۔ یہاں دروسِ نظامی کی مکمل تعلیم ابتدائی درجات سے لے کر دورۃ الحدیث تک دی جاتی ہے۔ دارالحدیث کا معیار پورے ملک میں معروف ہے اور ہزاروں طلبہ نے یہاں سے صحیح سند کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ اس کے ساتھ دارالافتاء میں روزانہ بیسیوں سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں جن کا تعلق عبادات، معاملات، معاشرت، وراثت، تجارت اور نکاح جیسے اہم شرعی موضوعات سے ہوتا ہے۔ جامعہ میں قرآنِ کریم کی تعلیم، حفظ و ناظرہ، تفسیر، فقہ، منطق، اصول، عربی ادب اور دیگر تمام روایتی علوم بڑے اہتمام سے پڑھائے جاتے ہیں۔ جدید دور کے مطابق رہائشی اور تعلیمی سہولیات بھی نہایت عمدہ ہیں اور جامعہ وفاق المدارس العربیہ کا ایک مضبوط اور فعال رکن ہے۔

جامعہ خیر المدارس کی خدمات میں سب سے بڑا حصہ اس کے بے شمار فضلاء کا ہے جو پورے ملک اور دنیا کے مختلف حصوں میں دینی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ہزاروں علما، حفاظ، ائمہ اور خطباء یہاں سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی سینکڑوں مساجد میں اسی جامعہ کے تربیت یافتہ ائمہ اور مدرسین خدمات انجام دے رہے ہیں۔ فقہی رہنمائی کے لیے دارالافتاء کی خدمات پورے ملک میں اعتماد کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح وفاق المدارس میں بھی مولانا محمد حنیف جالندھری اور دیگر اکابر نے نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ ہمیشہ اعتدال، سنت کی پیروی، فقہِ حنفی اور اخلاقی تربیت کے فروغ کے لیے معروف رہا ہے۔

آج کے دور میں جامعہ خیر المدارس صرف ملتان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی پنجاب کے نمایاں ترین دینی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ ہزاروں طلبہ یہاں زیرِ تعلیم ہیں اور جامعہ کی علمی، تحقیقی، دعوتی اور اصلاحی خدمات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ یہ ادارہ نہ صرف ایک تاریخی ورثہ ہے بلکہ امت کی فکری اور عملی رہنمائی کا مستقل مرکز بھی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے