زبانوں کی روشنی میں کھلتی ایک نئی دنیا

نیم روشن کمرے میں پڑتی سورج ڈھلتی کرنیں جیسے ایک نئے سفر کی پیش خیمہ لگتی تھیں۔ اسی پرسکون فضاء میں نایاب اپنی گود میں رکھے نوٹس کے پلندے کو سنبھالے بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے رکھا لیپ ٹاپ جن میں مختلف زبانوں کے الفاظ کی فہرست جگمگا رہی تھی اسے کسی نئی سمت کی طرف لے جانے کے لیے بے تاب دکھائی دیتا تھا۔ نایاب کے دل میں عرصے سے خواہش پل رہی تھی کہ وہ مختلف زبانوں کا علم حاصل کرے مگر عملی طور پر قدم اٹھانے کا حوصلہ آج تک مجتمع نہ کر پائی تھی۔ اس کی دلی بے چینی میں اضافہ تب ہوا جب اسے شاہد لطیف کے اس خصوصی مضمون کی وہ سطر یاد آئی جس میں مختلف زبانوں میں معلم کے لئے مستعمل الفاظ درج تھے۔ وہ سطر اس پر اس قدر گہرا اثر چھوڑ گئی تھی کہ جیسے ایک ہی لفظ اپنی کئی صورتوں کے ساتھ پوری دنیا کا در کھول دیتا ہو۔

اسی وقت ٹک، ٹک دروازہ بجا اور مہوش اندر آئی۔ اس کے ہاتھ میں گرم چائے کے دو کپ تھے اور چہرے پر ہمیشہ کی طرح دھنک سی چمک۔ اس نے نایاب کے سامنے کپ رکھا اور مسکرا کر بیٹھ گئی۔

ارے واہ، کیا چل رہا ہے؟ اس نے نایاب کے لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کیا۔

نایاب نے بے ساختہ کہا: تمہیں پتہ ہے اُردو میں عورت، فرانسیسی میں فَم، جرمن میں فراؤ، عربی میں نساء اور ترکی میں قادن… یہ سب عورت کے مختلف روپ ہیں۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ ایک ہی وجود کتنی زبانوں میں کتنی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بھی مختلف زبانوں کا سفر شروع کرنا چاہیے۔

مہوش کے لبوں پر نرم سی مسکراہٹ ابھری اور بولی: تو پھر شروع کیوں نہیں کرتیں؟ یہی تو وقت ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ زبانوں کا علم کسی اضافی سہولت کی طرح نہیں رہ گیا یہ تو اپنے آپ کو سنوارنے سمجھنے اور عالمی سطح پر پہچان بنانے کی بنیاد بن چکا ہے۔

نایاب خاموش ہوئی اور پھر بولی: مجھے لگتا ہے کہ زبانیں سیکھنے سے میں خود کو بہتر بنا سکتی ہوں۔ جانتی ہو میں نے تحقیق پڑھی کہ یادداشت بڑھتی ہے، شخصیت نکھرتی ہے اور نظر وسیع ہوتی ہے۔ جیسے ہر زبان ایک نیا در کھول دیتی ہے۔

مہوش نے گردن ہلائی اور بولی: بے شک۔ تمہیں یاد ہے وہ لڑکی ثوبیہ جو گھر بیٹھے فری لانس ترجمہ کرتی ہے؟ اس نے بتایا تھا کہ مختلف زبانیں سیکھ کر وہ مالی طور پر خود مختار ہو گئی ہے۔ اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ اور فاطمہ؟ وہ بین الاقوامی امدادی مشن میں بطور مترجم کام کرتی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ زبان جاننا الفاظوں کا مجموعہ نہیں ہوتا یہ تو مختلف قوموں کے درمیان پل بننے کا عمل ہے۔

نایاب کے اندر جیسے کوئی چراغ جل اٹھا۔ ہاں، میں نے یہ سب پڑھا ہے۔ خواتین کے لیے زبانیں سیکھنا اب شوق سے کہیں زیادہ ان کی ترقی، خود اعتمادی، حتیٰ کہ معاشرتی کردار کے لیے بھی ضروری ہے۔

مہوش نے چائے کا گھونٹ لیا اور نگاہیں نایاب کی آنکھوں میں گاڑ دیں اور بولی: پھر سوچنا نہیں اچھا قدم اٹھاؤ۔ تم نے ہمیشہ دوسروں کیلئے راستے روشن کیے ہیں اب اپنی دنیا بھی وسعت دو۔

ان لمحوں میں نایاب کو محسوس ہوا جیسے اس کے سامنے ایک نیا راستہ کھل رہا ہو۔ کمرے میں خاموشی تھی لیکن اس خاموشی میں ایک عجیب سی قوت جنم لے رہی تھی۔ وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس گئی۔ باہر شام کے رنگ بدل رہے تھے، پرندے واپس گھروں کو لوٹ رہے تھے اور اس کے دل میں ایک نیا سفر آغاز ہونے کو تھا۔

وہ بولی: مہوش، مجھے ڈر لگتا تھا کہ میں یہ سب نہیں کر پاؤں گی اب لگ رہا ہے کہ یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر میں اپنا مقام بنا سکتی ہوں۔ پڑھنا، سمجھنا، سیکھنا اور پھر دنیا تک اپنی پہنچ بڑھانا۔

مہوش نے کہا: اور تم یہ ضرور کر لو گی۔ اپنی مہارت سے نئی راہیں تلاش کرو گی۔ چاہے بین الاقوامی سطح پر کام کرنا ہو یا گھر بیٹھے فری لانسنگ کرنی ہو یا اپنا کاروبار بڑھانا ہو زبانیں تمہارا سب سے مضبوط سہارا بنیں گی۔

نایاب نے آہستہ سے لیپ ٹاپ بند کیا اور کہا: آج سے میں اپنی پہلی غیر ملکی زبان سیکھنے کا آغاز کر رہی ہوں۔ شاید اس سفر میں مجھے چیلنجز ملیں لیکن میں ہر چیلنج کے لیے تیار ہوں۔مہوش نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور بولی: یہی تو اصل طاقت ہے اپنی دنیا خود تعمیر کرنے کا حوصلہ۔

وہ دونوں دیر تک بیٹھے مستقبل کی باتیں کرتی رہیں۔ باہر شام مکمل ہو چکی تھی اور اندر ایک نیا سویرا طلوع ہونے والا تھا علم، اعتماد اور خودمختاری کا سویرا جس نے نایاب کی زندگی کو ایک نئے جہان سے جوڑ دینا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے