زندگی کو اگر کسی منظر سے تشبیہ دی جائے تو میرے نزدیک سب سے موزوں مثال ایئرپورٹ ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں آمد و رفت کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں۔ ہر لمحہ کوئی نہ کوئی پرواز اڑان بھر رہی ہوتی ہے، کوئی جہاز لینڈ کر رہا ہوتا ہے، اور کوئی مسافر اپنے سامان کے ساتھ گیٹ پر انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ منظر بظاہر محض سفر کا حصہ لگتا ہے، مگر غور کریں تو یہی زندگی کا فلسفہ ہے۔ لوگ آتے ہیں، لوگ چلے جاتے ہیں۔ کچھ مسافر جلدی روانہ ہو جاتے ہیں، کچھ تمہارے ساتھ لمبا سفر کرتے ہیں، اور کچھ بنا الوداع کہے اچانک رخصت ہو جاتے ہیں۔
میری زندگی بھی اسی سفر کی ایک کہانی ہے۔ اسلام آباد کی پرسکون گلیوں سے لے کر کراچی کی بے پناہ رونقوں تک، بیجنگ کی سرد شاموں سے لے کر مدینہ کی پاکیزہ فضاؤں تک، ہر جگہ کچھ لوگ ملے، کچھ ساتھ چلے، کچھ اچانک رخصت ہو گئے۔ ہر شہر ایک نیا ایئرپورٹ تھا، ہر ملاقات ایک نئی پرواز، اور ہر جدائی ایک نیا لینڈنگ۔
اسلام آباد میں بچپن کے دن ایسے تھے جیسے ایئرپورٹ کا پہلا گیٹ۔ دوستوں کی ہنسی، اسکول کی یادیں اور خاندان کی قربت سب کچھ ایک ابتدائی بورڈنگ پاس کی طرح تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب زندگی کی پرواز ابھی چھوٹی تھی مگر خواب بڑے تھے۔ پہاڑ اور سبزہ زار ایسے لگتے تھے جیسے رن وے کے کنارے کھڑے ہوں۔ ہر صبح ایک نئی پرواز کی طرح تھی اور ہر شام ایک لینڈنگ۔
کراچی پہنچ کر منظر بدل گیا۔ یہ شہر ایک بڑے انٹرنیشنل ٹرمینل کی طرح ہے جہاں ہر وقت شور، رونق اور ہجوم رہتا ہے۔ ہر گیٹ پر ایک نئی کہانی، ایک نیا چہرہ اور ایک نیا سبق۔ کراچی نے مجھے یہ سکھایا کہ ہجوم میں بھی اپنی پرواز تلاش کرنی ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کی محنت اور دن رات کی دوڑ نے یہ سبق دیا کہ زندگی کا سفر آسان نہیں۔ ہر پرواز کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور ہر لینڈنگ کے لیے صبر۔
بیجنگ کی سرد شامیں زندگی کے سفر میں ایک خاص پڑاؤ تھیں۔ اجنبی زبان، اجنبی لوگ اور اجنبی ماحول۔ مگر اجنبیت بھی ایک سبق ہے۔ بیجنگ نے مجھے قیادت اور صبر سکھایا۔ یہاں کی ٹیکنالوجی اور ثقافت نے یہ احساس دلایا کہ دنیا ایک بڑا ایئرپورٹ ہے۔ ہر ملک ایک نیا ٹرمینل، ہر زبان ایک نیا گیٹ اور ہر ثقافت ایک نئی پرواز۔
مدینہ کی فضاؤں میں لینڈنگ ایک روحانی تجربہ تھا۔ یہ وہ ایئرپورٹ ہے جہاں دل سکون پاتا ہے۔ یہاں کی گلیاں، مساجد اور پاکیزگی نے یہ احساس دلایا کہ زندگی کا اصل سفر روح کا ہے۔ یہاں کی ہر پرواز دعا کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور سکون کے ساتھ ختم۔ مدینہ نے مجھے یہ سبق دیا کہ زندگی کا اصل مقصد قربِ الٰہی ہے۔
زندگی کے ایئرپورٹ پر ہر شخص ایک مسافر ہے۔ کچھ تمہارے ساتھ لمبا سفر کرتے ہیں، کچھ چند لمحوں کے لیے آتے ہیں، اور کچھ بنا الوداع کہے رخصت ہو جاتے ہیں۔ مگر ہر مسافر کچھ نہ کچھ سکھا کر جاتا ہے۔ کوئی قیادت کا سبق دیتا ہے، کوئی صبر کا، اور کوئی یہ یاد دلاتا ہے کہ جدائی بھی زندگی کا حصہ ہے۔ یہی زندگی کا اصل فلسفہ ہے: کوئی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ بس یہ سمجھنا ہوتا ہے کہ کب کسی کا ہاتھ تھامنا ہے اور کب کسی کو اگلی فلائٹ پکڑنے دینا ہے۔
ہر ملاقات ایک سبق ہے، ہر جدائی ایک یادگار، اور ہر منزل ایک نیا آغاز۔ ملاقاتیں خوشی دیتی ہیں، جدائیاں آنسو، مگر دونوں ہی زندگی کو معنی بخشتی ہیں۔ کچھ ملاقاتیں دل پر نقش ہو جاتی ہیں، کچھ جدائیاں زخم چھوڑ جاتی ہیں، مگر وقت کے ساتھ وہ زخم بھی یادگار بن جاتے ہیں۔
ہر نیا سال ایک نئے ایئرپورٹ کی طرح ہوتا ہے۔ یہ اپنے ساتھ نئی پروازیں، نئے مسافر اور نئے خواب لے کر آتا ہے۔ کچھ فلائٹس ہمیں پرانی یادوں کی طرف واپس لے جاتی ہیں، کچھ ہمیں نئی منزلوں کی طرف روانہ کرتی ہیں۔ ہر نیا سال ایک بورڈنگ پاس ہے جو ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے سفر کو نئے زاویے سے دیکھیں۔ کچھ گیٹ پر پرانے دوستوں کو دوبارہ ملتے ہیں، کچھ گیٹ پر نئے چہرے ہمارا استقبال کرتے ہیں۔ اور ہر روانگی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ زندگی کا سفر رکنے کے لیے نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے ہے۔
ایئرپورٹ کا فلسفہ یہی ہے کہ کوئی پرواز ہمیشہ کے لیے نہیں رُکتی۔ ہر جہاز کو ایک دن روانہ ہونا ہوتا ہے۔ زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ ہر شخص ایک دن اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس دوران جو یادیں، جو سبق اور جو محبتیں ملتی ہیں، وہی زندگی کا اصل سرمایہ ہیں۔
یوں ہر سال، ہر ایئرپورٹ اور ہر پرواز زندگی کو ایک تازہ آغاز، ایک نئی امید اور ایک روشن منزل عطا کرتی ہے۔ زندگی کا سفر رکنے کے لیے نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے ہے۔ ہر ملاقات کو یادگار بنائیں، ہر جدائی کو سبق اور ہر منزل کو نیا آغاز۔ یہی زندگی کا اصل فلسفہ ہے۔