اجتماع عام کی شاندار کامیابی اور ایک مؤثر، حقیقت پسندانہ روڈ میپ کے بعد یہ وقت کا تقاضا ہے کہ جماعت اسلامی اپنے اندر بعض فکری اور انتظامی معاملات کو واضح طور پر ایڈریس کرے۔ اس کا مقصد اختلافِ رائے کو دبانا نہیں بلکہ اسے ایک منظم فکری ڈھانچے میں سمیٹنا ہے، تاکہ کارکنان اپنی توانائی غیر ضروری بحثوں میں ضائع کرنے کے بجائے یکسوئی سے عملی جدوجہد کو آگے بڑھا سکیں۔
سب سے اہم اور حساس مسئلہ ترانوں اور آڈیو ویژول مواد میں موسیقی کی شرعی حیثیت کا ہے۔ یہ سوال محض فقہی نہیں بلکہ عملی نوعیت کا ہے، کیونکہ آج کی سیاست میں ڈیجیٹل میڈیا مرکزی کردار ادا کر چکا ہے۔ یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ موسیقی کی اجازت کی حدود کیا ہیں، کس نوعیت کے ساؤنڈ ایفیکٹس قابل قبول ہیں، اور آلات موسیقی اور ڈیجیٹل آوازوں میں شرعی و اخلاقی فرق کیسے متعین کیا جائے۔ اجتماع کے دوران پروفیسر ابراہیم صاحب نے اس پر اپنی رائے دی، جبکہ امیرِ جماعت نے مختلف فقہی آراء کا حوالہ دیا، مگر اس موضوع پر ایک حتمی، واضح اور تحریکی سطح پر قابلِ عمل پالیسی کی ضرورت باقی ہے۔ اگر یہ خلا برقرار رہا تو یہی مسئلہ مستقبل میں فکری انتشار اور داخلی اختلاف کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی طرح خواتین کے کردار اور حدود و قیود کا مسئلہ بھی نہایت اہم ہے۔ ایک اسلامی جماعت نہ تو مکمل سیکولر آزادی کو قبول کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی خاتون کو اس کے ظاہری حلیے یا پس منظر کی بنیاد پر رد کرنے کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ واضح رہنما اصول طے کیے جائیں کہ کن پروگرامز میں کس نوعیت کا لباس کم از کم ضروری ہوگا، جماعت کے آفیشل پیجز اور چینلز پر کس معیار کی تصاویر شائع کی جا سکتی ہیں، اور اگر کسی خاتون کو بطور رول ماڈل یا ہیرو پیش کرنا ہو تو اس کے لیے کیا معیار مقرر ہوگا۔
یہ وضاحت صرف جماعت اسلامی کے لیے نہیں بلکہ پوری اسلامی سوسائٹی کے لیے ایک بڑا فکری احسان ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عجیب تضاد پایا جاتا ہے کہ کچھ حلقے لاوڈ اسپیکر سے لے کر تصویر تک ہر چیز کو حرام قرار دیتے ہیں، مگر خود روزانہ نئی سیلفی اپ لوڈ کرتے ہیں۔ اس تضاد کے نتیجے میں عام آدمی فکری انتشار کا شکار ہو جاتا ہے، جبکہ تحریکی کارکن احساسِ گناہ یا بے زاری کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک واضح، متوازن اور تحریکی موقف اس تضاد کو کم کر سکتا ہے۔
ایک اور نہایت اہم ضرورت امیرِ جماعت اور کارکنان کے درمیان براہ راست رابطے کے نظام کی بحالی ہے۔ ماضی میں امرائے جماعت کارکنان کے خطوط کے باقاعدگی سے جواب دیتے تھے، جس سے ہر کارکن کو یہ احساس رہتا تھا کہ وہ قیادت سے جڑا ہوا ہے۔ سراج الحق صاحب کے دور میں یہ روایت کمزور پڑ گئی، اور آج خطوط کا زمانہ بھی مؤثر نہیں رہا کیونکہ سوشل میڈیا نے ابلاغ کے تمام طریقے بدل دیے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ امیرِ جماعت ہفتے میں کم از کم دو گھنٹے کا براہ راست لائیو سیشن لازمی رکھیں، جس میں کارکنان کے سوالات کے براہ راست جواب دیے جائیں۔ اسی طرح صوبائی امراء بھی باقاعدہ لائیو سیشنز کریں۔ سوالات کے لیے ایک شفاف ڈیش بورڈ ہو تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ سوالات کو سنسر کیا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف کارکنان کا حوصلہ بڑھے گا بلکہ عام عوام بھی دیکھ سکیں گے کہ ایک حقیقی جمہوری جماعت کس طرح اندرونی روابط کو مضبوط بناتی ہے۔
تنظیمی سطح پر سب سے اہم مرحلہ ذمہ داران کی کارکردگی کا باقاعدہ اور غیر جانبدارانہ جائزہ ہے۔ اگر یہ کام سنجیدگی سے نہ کیا گیا تو بہترین روڈ میپ بھی اسی انجام سے دوچار ہو سکتا ہے جس کا سامنا ماضی میں جماعت کی بہترین دعوتی حکمت عملی کو کرنا پڑا۔ اب جب کہ جماعت کے اراکین کی تعداد ماشاءاللہ 45 ہزار تک پہنچ چکی ہے، تو یہ لازم ہو چکا ہے کہ ایک ہی فرد پر کئی ذمہ داریاں ڈالنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
ہر فرد کو صرف ایک واضح ذمہ داری دی جائے اور اس کی کارکردگی کو مسلسل مانیٹر کیا جائے۔ محض رپورٹوں کے انبار لگا کر کارکردگی ظاہر کرنے والوں کو آہستگی سے سبکدوش کیا جائے اور نئے، متحرک اور دیانت دار افراد کو مواقع فراہم کیے جائیں۔ تحریکیں اسی وقت زندہ رہتی ہیں جب ان میں خون کی نئی گردش جاری رہے۔
ایک بڑی اور خطرناک کمی جس کا احساس موجودہ اجتماع کے دوران بھی شدت سے ہوا، وہ کنٹینٹ کری ایشن کا فقدان ہے۔ مرکزی سطح پر جو مواد آیا وہ بلاشبہ اعلیٰ پروفیشنل ٹیم کا تیار کردہ تھا، مگر انفرادی سطح پر وی لاگز، بلاگز اور پوڈ کاسٹس نہ ہونے کے برابر تھے۔ اجتماع میں ہزاروں ایسے پہلو موجود تھے جن سے متاثر کن اسٹوریز، ویڈیوز اور تحریریں بن سکتی تھیں، مگر یہ میدان تقریباً خالی نظر آیا۔
ڈیجیٹل دور میں عوام تک رسائی کے لیے صرف جلسے اور بیانات کافی نہیں۔ جماعت کے ہزاروں کارکن اور ہمدرد روزانہ کی بنیاد پر کنٹینٹ تخلیق کریں، جماعت کے پروگرامات، منشور اور وژن کو سادہ اور تخلیقی انداز میں عوام تک پہنچائیں۔ اس کے بغیر نئی نسل تک رسائی عملاً ناممکن ہو چکی ہے۔
اگر جماعت اسلامی ان فکری، تنظیمی اور ابلاغی کمزوریوں کو سنجیدگی سے دور کر لیتی ہے تو اس کا حالیہ اجتماع عام محض ایک کامیاب ایونٹ نہیں رہے گا بلکہ ایک حقیقی تجدیدی مرحلے کی بنیاد بن جائے گا۔ یہ وہ مرحلہ ہو سکتا ہے جہاں تحریک محض تاریخ کا حصہ بننے کے بجائے مستقبل کی سیاست کی سمت طے کرنے والی قوت بن جائے۔