وطن عزیز پاکستان ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں موزوں افراد کا انتخاب ہر دور میں ایک مسئلہ رہا ہے۔
چونکہ ہمارا سیاسی نظام اور پھر اس کے ماتحت انتظامی یونٹس جنہیں وزرات کا نام دیا جاتا ہے جماعتی اور سیاسی وابستگیوں کی بنا پر سونپے جاتے ہیں۔
بسا اوقات تو یوں بھی مشاہدے میں آیا ہےکہ ایسے بندے کو وزرات کا قلمدان سونپ دیا جاتا ہے جسے اس وزرات کی الف،ب کا بھی علم نہیں ہوتا اور پھر طرفۂ تماشہ کے وزیر موصوف کی ترجیحات فقط پروٹوکول اور وزرات کے نام پر افسر شاہی ہوتی ہے۔
اس وقت وزرات مذہبی امور کی ترجیحات بھی کچھ ایسی ہی ہیں لیکن اس کا اصل کام ایسے ماحول کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے جہاں ہر شہری اس کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب سے ہو امن اور آئینی تقاضوں کے مطابق اپنے مذہب کی پیروی کر سکے اس کے ساتھ یہ وزرات بنیادی طور پر ان پانچ نکات پر مشتمل ہوتی ہے۔
اسلامی نظریات کا فروغ
اقلیتی امور
بین المذاھب ہم آہنگی
طباعت قرآن
حج وعمرہ کا انتظام
بین الاقوامی طور پر اسلام کا پرچار۔
بنیادی طور پر یہ وہ نکات ہیں جن کے گرد وزرات مذہبی امور گھومتی ہےمگر اس وقت ہماری وزرات مواقیت الصلاۃ کو کلی طور پر اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھ کر اس پر فوکس کر رہی ہے۔
حالانکہ مواقیت کےحوالےسےقرآن وسنت میں پہلے سے احکام موجود ہیں بلکہ فقہاء کرام نے ان اوقات کے آغاز و اختتام کابھی تعین کر کے امت کو آج سے صدیوں قبل یہ سہولت فراہم کر دی ہے تاکہ عبادات کی ادائیگی میں کسی بھی قسم کی کوئی دشواری نہ ہو چنانچہ قرآن کریم میں اس بابت دیے جانے والے احکام کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
قرآن و سنت میں ایسا کوئی شرعی حکم میری دانست میں نہیں ہے جہاں اس بات کی قید لگائی گئی ہو کہ دارالاسلام میں ایک ہی وقت میں کلی طور پر نمازیں ادا کی جائیں چونکہ شریعت مطہرہ نے اوقات نماز کو سورج کی پوزیشن و جغرافیائی محل وقوع کے ساتھ جوڑا ہے جس کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں۔
جغرافیائی محل وقوع:
زمین گول ہےاور سورج کی حرکت کے مطابق مختلف علاقوں میں نماز کے اوقات مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ایک ہی علاقے میں مشرقی اور مغربی علاقوں میں بھی سورج کی نقل و حرکت کے باعث اوقات نماز میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
تعلیمات شریعت:
نصوص میں اوقات نماز کو سورج کی علامات کے ساتھ نتھی کی گیا ہے یعنی سورج کا ڈھلنا سورج کا دوگنا ہونا اور غروب ہونا وغیرہ ۔
عملی دشواری:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضر میں جدید ٹیکنالوجی نے بہت سارے معاملات میں آسانی پیدا کر دی جس کو بنیاد بنا کر اوقات کا تعیین کیا جا سکتا ہے مگر بنیادی اصول آج بھی وہی ہے کہ اوقات الصلاۃ کے لیے مقامی وقت کا ہی اعتبار کیا جائے گا۔
نصوص شرعیہ میں بیان کردہ احکام کے بعد فقہی مذاہب میں بھی مواقیت الصلاۃ پر اتفاق پایا جاتا ہے جبکہ بعض معمولی تعبیرات کا فرق ہمیں فقہی ذخیرہ میں ملتا ہے۔
نماز فجر کے وقت کے حوالے سے چاروں مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا آغاز صبح صادق یعنی افقی سفید روشنی سے شروع ہو کر طلوع آفتاب کو یعنی روشنی کے گہرا ہونے تک اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔
اسی طرح نماز ظہر کے آغاز کے بارے میں سبھی فقہاء متفق ہیں کہ یہ زوال سورج یعنی جب سورج غروب یعنی ڈھلنے کی طرف سفر کرنا شروع کرتا ہےتوظہرکاآغاز ہوجاتا ہےجبکہ اس نماز کے اختتام وقت میں معمولی نوعیت کا فرق پایا جاتا ہے مذاہب ثلاثہ مالکیہ،شوافع اور حنابلہ کا مذہب یہ ہیکہ کہ جب کسی چیز کا سایہ اس کے اصل قد کے برابر ہو جائےتواس نماز کا وقت ختم ہو جاتا ہے جبکہ احناف اس بابت سائے کو دوگنا ہونے کا قول کرتے ہیں۔
اسی طرح نماز عصر کے متعلق جمیع فقہاء کا قول یہی ہےکہ اس کا آغاز ظہر کے فوری بعد ہو جاتا ہے اور وہی آراء سایہ کا ایک مثل یا دو مثل ہونا ہے جبکہ اختتام سورج کے غروب ہونے سے شروع ہو جاتا ہے لیکن فقہاء اس کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک وقت فضیلت اور دوسرے کو وقت کراہت سے موسوم کرتے ہیں۔
مغرب کی نماز کے متعلق ہمیں فقہی ذخیرے میں ملتا ہے کہ تمام فقہاء کے نزدیک سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی اس نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے جبکہ اس کا اختتام احناف،شوافع اور حنابلہ کے نزدیک شفق احمر کے ساتھ ہے۔
جبکہ مالکیہ کا اس بابت مشہور قول یہ ہے کہ وہ اس کو انتہائی مختصر فقط اتنا مانتے ہیں جس میں وضو،ستر ڈھانپنا،اذان و اقامت اور فرض نماز ادا کی جا سکے۔
جبکہ عشاءکی نمازکاوقت آغاز سبھی کےہاں وقت شفق سے شروع ہو جاتا ہے جبکہ اختتام کے حوالے سے احناف اور مالکیہ کاقول ہے کہ یہ صبح صادق تک باقی رہتا ہے لیکن آدھی رات کے بعد پڑھنا مکروہ کہلاتا ہے اسی کے برعکس شوافع اور حنابلہ کے نزدیک آدھی رات تک رہتا ہے ۔
خلاصہ کلام مواقیت الصلاۃ کا تعین سورج کے ساتھ منسلک ہے جبکہ فقہی آراء اسی کی تشریح و تعبیر ہے جس کا بنیادی مقصد قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونا ہے اور وزرات مذہبی امور کا اصل ہدف ان امور کا بجا لانا ہونا چاہیے جس باعث ایسا ماحول شہریوں کو فراہم کیا جا سکے جس باعث امن کا قیام ممکن ہو اور ہر شخص اپنی مذہبی تعلیمات پر
آسانی سے عمل پیرا ہو سکے۔