آئینی ترامیم: عوامی اعتماد اور جمہوریت کا امتحان

پاکستان کا آئین 1973 ایک تاریخی اور قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر تشکیل پانے والی دستاویز ہے جس میں مختلف ادوار میں کئی ترامیم کی گئیں۔ ان میں سے کچھ سیاسی ضرورت کے تحت ہوئیں جبکہ کچھ عوامی مفاد سے قریب تھیں۔ ان تمام ترامیم میں 18ویں ترمیم وہ واحد اصلاح تھی جسے نہ صرف وسیع عوامی حمایت حاصل تھی بلکہ اسے قومی مفاد اور وفاقی توازن کے حوالے سے ایک مثالی اقدام قرار دیا گیا۔

ماضی کی متعدد ترامیم کے مقابلے میں 18ویں ترمیم حقیقی عوامی خواہش کی ترجمانی کرتی تھی۔ اس ترمیم نے وفاق اور صوبائی اختیارات کی منصفانہ اور واضح تقسیم کیی، صوبائی خودمختاری میں اضافہ کیا اور عوامی خدمات تعلیم، صحت، فلاح کو صوبوں تک منتقل کرکے مؤثر نظام کی بنیاد رکھی۔ اس ترمیم نے ثابت کیا کہ آئینی اصلاحات جب عوامی مشاورت کے ساتھ کی جائیں تو وفاق مضبوط اور عوام بااختیار ہوتے ہیں۔

26ویں اور 27ویں ترامیم: قانونی حلقوں اور عوام میں گہری تشویش۔ حالیہ 26 ویں اور 27ویں ترامیم نے سیاسی و قانونی حلقوں میں متعدد سوالات پیدا کیے ہیں:

1. مخصوص مفادات کا تاثر:

ان ترامیم کو عوامی فلاح کے بجائے طاقتور طبقات کے فائدے سے جوڑا جا رہا ہے۔

2. عدالتی توازن متاثر ہونے کا خطرہ:

27ویں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ڈھانچے میں تبدیلیوں نے عدلیہ کی آزادی پر خدشات بڑھائے ہیں۔

3. پارلیمان میں محدود بحث:

متعدد ارکان نے ترامیم کے اثرات کا مکمل جائزہ لیے بغیر ووٹ دیا جو قانون سازی کا کمزور عمل ظاہر کرتا ہے۔

4. تیز رفتار قانون سازی:

ترمیمات غیر معمولی رفتار سے منظور ہوئیں جس سے عوامی مشاورت شامل نہ ہو سکی۔

متوقع 28ویں ترمیم آئینی ڈھانچے میں وسیع تبدیلی کا امکان: سیاسی و قانونی حلقوں کے مطابق 28ویں ترمیم جلد پیش کیے جانے کا امکان ہے جس کے نتیجے میں آئین کے بنیادی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

ان خدشات میں شامل ہیں: وفاقی و صوبائی اختیارات کا بنیادی توازن متاثر ہونا ممکنہ طور پر مرکزی سطح پر اختیارات کی دوبارہ منتقلی اور عوامی مفاد کے بغیر آئینی تبدیلی کا عدم اعتماد بڑھانا۔ اس کے نتیجے میں مستقبل میں سیاسی و عدالتی بحران کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ قانون سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ترمیم کے طویل مدتی اثرات کا مکمل اور شفاف تجزیہ کریں۔

جمہوریت کا تقاضا عوامی مفاد، شفاف حکمرانی اور ادارہ جاتی توازن هے: جمہوریت کی بنیاد عوام کی حکمرانی، شفافیت، انصاف اور قومی ترقی پر ہوتی ہے۔ حکومتی ادارے عوام کے اعتماد کے امین ہیں اور آئینی ترامیم کا مقصد بھی عوامی فلاح ہونا چاہیے۔ موجودہ قانون سازی کے انداز نے نہ صرف عوام میں بے اعتمادی پیدا کی ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آیا فیصلے واقعی عوامی مفاد میں کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔

اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور حکومت واقعی جمہوریت کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں عوامی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے قانون سازی میں شفافیت کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ آئین کو وقتی سیاسی فائدے ذاتی طاقت یا اپوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے، اور آئین اور اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا صرف ترامیم نہیں۔ عوام کا اعتماد تب ہی بحال ہوگا جب وہ محسوس کریں گے کہ فیصلہ سازی ان کے مفاد میں ہو رہی ہے یہی جمہوری نظام کی اصل روح ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے