غدار سیاست دان

یہ کیسا خطہ ہے، کیسی سیاست ہے، اور کیسے لوگ ہیں کہ اپنے ہی گھر کو دشمن کے قدموں میں ڈال کر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ کبھی سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہماری تاریخ میں بار بار ایک ہی سانحہ چراغ کی لو کی طرح جلتا بجھتا رہتا ہے اپنے مفاد کی خاطر اپنے ہی ملک کے خلاف بیرونی طاقتوں کو دعوت دینے کا سانحہ۔ یہ رسم نئی نہیں، یہ کل بھی تھی، یہ آج بھی ہے، اور افسوس کہ شاید آنے والے کل میں بھی رہے گی۔

بے نظیر بھٹو اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ ایک مستقل آزمائش رہیں۔ ذہانت اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے ادوار میں کئی ایسے فیصلے ہوئے جنہوں نے پاکستان کی خودمختاری اور حکمتِ عملی پر سوال اٹھائے۔ راجیو گاندھی کو دعوتِ حملہ دینے والا تنازع آج بھی لوگوں کی یادداشت میں تازہ ہے۔ یہ ایک ایسا داغ ہے جو وقت کے ساتھ دھندلا تو ہوا، مگر مٹ نہ سکا۔

اور اب جیسے اس آزمائش کو نیا رنگ دینے کے لیے عمران خان کے خاندان کی طرف سے ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ دشمن ملک کے وزیرِ اعظم مودی کو پاکستان پر حملہ کرنے کی دعوت دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ کون سی حب الوطنی ہے؟ کون سی سیاسی جدوجہد ہے؟ یہ کون سے اصول ہیں جن میں ملک کی عزت، سرحدیں، عوام اور مستقبل سب کچھ سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟
یہ کیسی سوچ ہے جس میں اپنے ہی ملک کے دشمن کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کہا جاتا ہے: “آؤ، حملہ کرو!”

یہ سیاسی و مذہبی جماعتیں دراصل وہی کردار ادا کر رہی ہیں جو مغل دور کے بزدل درباری کیا کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغل سلطنت کے آخری دور میں کچھ جاگیردار اور درباری اپنے بادشاہ کے خلاف افغانستان، ایران اور دوسرے طاقتور حکمرانوں کو خط لکھ کر دعوت دیتے تھے کہ آؤ، ہماری مدد کرو، ہم تمہیں راستہ دیں گے، تم سے وفاداری کریں گے۔
نتیجہ کیا نکلا؟
وہی بیرونی حملہ آور آئے، دہلی جلی، محل اجڑے، عورتیں روندی گئیں، بچے قتل ہوئے، سلطنت خاک میں مل گئی اور وہ خط لکھنے والے تاریخ کے بدصورت ترین کردار ثابت ہوئے۔

آج کا پاکستان بھی اسی ذہنی غلامی میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں بھی سیاست دان اپنی سیاست بچانے کے لیے قوم کو گروی رکھنے سے نہیں ہچکچاتے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کسی حملے کا مطلب ہوتا ہےسرحدوں پر خون، شہروں میں ملبہ، معیشت کی قبر، لاشوں کے ڈھیر، اور نسلوں کا مستقبل تاریک ہو جانا۔
لیکن سیاست؟
وہ تو بچنی چاہیے۔
اقتدار؟
وہ تو ہاتھ سے نہیں جانا چاہیے۔
بیانات؟
وہ تو چلتے رہنے چاہئیں۔
چاہے ملک کا وجود ہی کیوں نہ داؤ پر لگ جائے۔

پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں کسی جماعت کی پہلی وفاداری پاکستان سے نہیں ہوتی۔ وہ کبھی اپنے لیڈر سے وفاداری کرتی ہیں، کبھی اپنی کرسی سے، کبھی بیرونی حکومتوں سے، اور کبھی اپنے مفادات سے۔ نظریہ، حب الوطنی، اصول یہ سب یہاں کتابوں کی چیزیں ہیں، عملی سیاست میں ان کی کوئی قیمت نہیں۔

کیا اس خطے کی فضا میں واقعی کوئی ایسا زہریلا اثر موجود ہے جو حکمرانوں کو اپنے وطن سے غداری کی طرف مائل کرتا ہے؟ کیا یہ ہماری مٹی کی بدقسمتی ہے یا ہماری اجتماعی سوچ کا المیہ؟
ہم عجیب قوم ہیں۔ جلسے جلوسوں میں ملک سے محبت کے نعرے لگاتے ہیں، مگر جب سیاسی وفاداری اور ملکی وفاداری آمنے سامنے آ جاتی ہیں تو اکثر لوگ اپنی وفاداری سیاست کو دے دیتے ہیں۔ تبھی جب کوئی لیڈر دشمن کو دعوتِ حملہ دیتا ہے تو اس کے حمایتی تالیاں بھی بجاتے ہیں اور دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں۔

اصل سوال یہ نہیں کہ بے نظیر نے کیا کیا یا عمران خان کی بہن نے کیا کہا۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم بطور قوم کب سدھریں گے؟
کب سمجھیں گے کہ دشمن کو دعوت دینے والا دشمن سے بھی بدتر ہوتا ہے؟
کب تسلیم کریں گے کہ ریاستیں تب مضبوط ہوتی ہیں جب سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے خلاف غیر ملکی طاقتوں کا سہارا نہ لیں؟

یہ سرزمین بہت وفادار ہے، بہت سخی ہے، مگر افسوس کہ اس نے بار بار غدار پیدا کیے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمارے ہی درمیان سے نکلے ہیں۔

آخر میں بس ایک سوال رہ جاتا ہے:
او کون لوگ او تُسی؟
شاید، بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، یہ ہم خود ہی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے