پشاور پاکستان کا قدیم اور تاریخی شہر ہے، جو صدیوں سے مختلف تہذیبوں اور زبانوں کا مرکز رہا ہے۔ قصہ خوانی بازار، بالا حصار قلعہ اور مسجدِ مہابت خان اس کی تاریخی شناخت ہیں۔ یہاں پشتو، فارسی، ہندکو اور اردو کی آوازیں ایک ساتھ گھلتی ہیں، اور یہی کثیر لسانی ماحول اس شہر کو ایک ادبی گہوارہ بناتا ہے۔ رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک جیسے صوفی شاعر اس دھرتی کے روشن چراغ ہیں، اور جدید دور میں خاطر غزنوی نے اسی روایت کو آگے بڑھایا۔
خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ وہ ۵ نومبر ۱۹۲۵ کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان افغانستان کے شہر غزنی سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم بنوں میں حاصل کی، ثانوی تعلیم پشاور میں مکمل کی، اور ۱۹۵۸ میں جامعہ پشاور سے اردو میں ایم اے کیا۔ بعد ازاں وہ اسی جامعہ کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوئے، لیکچرر سے پروفیسر اور پھر چیئرمین تک کا سفر طے کیا۔ وہ ایک کثیر اللسان شخصیت تھے جنہیں اردو، ہندکو، پشتو، فارسی، انگریزی، چینی، مالے اور روسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ۱۹۶۵ میں چین سے مینڈارن زبان کا ڈپلومہ حاصل کیا اور بعد میں ملائیشیا میں اردو اور پاکستان اسٹڈیز کے شعبے کی سربراہی کی۔
خاطر غزنوی نے اپنے کیریئر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو میں بطور کلرک کیا۔ جلد ہی وہ پروڈیوسر اور پروگرام آرگنائزر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور ۱۹۶۲ تک پشاور و راولپنڈی اسٹیشنوں پر خدمات انجام دیں۔ ریڈیو نے انہیں ملک بھر کے سامعین سے جوڑا اور ان کے ڈرامے روزمرہ زندگی کی حقیقت کو اجاگر کرنے کے لیے مشہور ہوئے۔
خاطر غزنوی نے زبانوں کی تاریخ اور ادبی تحریکوں پر وسیع تحقیق کی۔ ان کی کتاب "اردو زبان کا ماخذ ہندکو” (2003) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اردو اور ہندی دونوں کا ماخذ ہندکو ہے۔ یہ دعویٰ متنازع رہا، مگر اس نے لسانیات میں نئی بحث کو جنم دیا۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک (PWA) کے صوبائی نائب صدر بھی رہے۔ جامعہ پشاور میں انہوں نے شعبۂ اردو کی سربراہی کی اور چینی زبان کا مرکز قائم کیا۔ بعد میں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔
خاطر غزنوی کی شاعری نرم، مدہم اور فکر انگیز ہے۔ ان کے اشعار میں زندگی کے چھوٹے لمحوں، انسانی رشتوں کے بدلتے رنگ اور معاشرتی کیفیات کا عمیق اظہار ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں کو پاکستان اور برصغیر کے نامور گلوکاروں نے اپنی آواز دی اور انہیں شہرت کے نئے آسمان تک پہنچایا۔ فریدہ خانم، مہدی حسن، طارق خان، غلام علی اور راج کمار رضوی جیسے عظیم فنکاروں نے ان کے کلام کو گایا اور اسے موسیقی کی دنیا میں امر کر دیا۔
ان کی سب سے مشہور غزل "گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے” مہدی حسن کی آواز میں اس طرح گونجی کہ یہ غزل نہ صرف کلاسیکی موسیقی کا حصہ بن گئی بلکہ سامعین کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئی۔ ان کی ہندکو شاعری کے مجموعے "کُونجاں” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے خوشحال خان خٹک کے کلام کو اردو اور ہندکو میں منتقل کیا، جن میں خوشحال نامہ، دستار نامہ، رقص نامہ شامل ہیں۔
خاطر غزنوی کی کتابیں اور ادبی خدمات
(املا مکمل درست، صرف ترتیب بہتر کی گئی)
پھول اور پتھر (ناول) — انسانی رشتوں، جذبات اور معاشرتی تضادات کو فنی انداز میں پیش کرنے والا ادبی ناول۔
چٹان اور رومان (پاکستانی لوک کہانیاں) — عوامی ثقافت اور دیہی زندگی کی جھلکیاں لیے ہوئے لوک داستانوں کا مجموعہ۔
سرحد کی رومانوی کہانیاں — سرحدی علاقوں کی لوک کہانیوں کا اہم مجموعہ۔
خواب در خواب (شاعری) — اردو نظم و غزل کا مجموعہ، انسانی جذبات اور معاشرتی پیچیدگیوں کا لطیف اظہار۔
سانپ کی چھتری (شاعری) — جدید اردو شاعری کا علامتی و استعاراتی مجموعہ۔
خوشحال خان خٹک: کلام کا ترجمہ — خوشحال نامہ، دستار نامہ، رقص نامہ کے اعلیٰ تراجم۔
زندگی کے لیے (ڈرامہ) — روزمرہ زندگی اور انسانی رشتوں کی حقیقت نمایاں کرنے والا ریڈیو ڈرامہ۔
منزل بہ منزل (ڈرامہ) — انسانی سفر اور جدوجہد کو علامتی انداز میں بیان کرنے والا ڈرامہ۔
پاکستان میں اردو (تحقیق) — اردو زبان کی تاریخ، ارتقاء اور چیلنجز کا تحقیقی تجزیہ۔
خیابانِ اردو (تحقیق) — اردو ادب اور ادبی تحریکوں کے سماجی و ثقافتی پہلوؤں پر تحقیق۔
جدید اردو ادب (تحقیق) — جدید اردو ادب کے رجحانات اور فکری تحریکوں کا مطالعہ۔
جدید اردو نظم (تحقیق) — اردو نظم کے جدید اسالیب کا تحقیقی مطالعہ۔
اردو زبان کا ماخذ ہندکو (تحقیق) — ہندکو کے لسانی کردار پر مبنی اہم تحقیق۔
خاطر غزنوی کو ۱۹۹۹ میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا، جو ان کی نصف صدی پر محیط علمی و ادبی خدمات کا اعتراف تھا۔ یہ اعزاز ان کے لیے محض ایک تمغہ نہیں بلکہ ان کی مسلسل محنت، تحقیق، تدریس اور تخلیقی کاوشوں کی قومی سطح پر پذیرائی تھی۔ انہوں نے اردو، ہندکو اور پشتو ادب میں جو گراں قدر سرمایہ چھوڑا، اس نے نہ صرف مقامی زبانوں کو تقویت دی بلکہ پاکستان کے ادبی منظرنامے کو عالمی سطح پر روشناس کرایا۔
خاطر غزنوی ۷ جولائی ۲۰۰۸ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، مگر ان کا علمی و ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا چراغ بنا ہوا ہے۔ ان کی زندگی اور کام ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ادب محض جمالیاتی اظہار نہیں بلکہ تاریخ کا حافظ، زبانوں کا ترجمان اور معاشرتی شعور کا آئینہ ہے۔ وہ شاعر بھی تھے، محقق بھی، استاد بھی، اور زبانوں کے درمیان ایک مضبوط پل بھی۔ ان کی شخصیت پشاور کی تہذیبی رنگا رنگی اور پاکستان کی ادبی جدوجہد کی علامت ہے، جو یہ باور کراتی ہے کہ ادب کی اصل طاقت انسانوں اور ثقافتوں کو جوڑنے میں ہے۔