پاکستان ایک عجیب ملک ہے.یہاں سب کو مسائل کا پتا ہے، سب کو اصلاحات کی سمجھ ہے، سب دوسروں کو نصیحت بھی کرتے ہیں، مگر جب اپنی باری آتی ہے تو کسی کو اپنی غلطی نظر نہیں آتی۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں ہر شخص خود کو ٹھیک اور باقی سب کو خراب سمجھتا ہے۔ ہم سیاست میں بھی ماہر ہیں، مذہب میں بھی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار بھی، اور معاشرتی فلسفہ کے استاد بھی۔ مگر عملاً ہم وہی کرتے ہیں جو ایک غیر ذمہ دار اور غیر منظم قوم کرتی ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر کوئی اصول ماننے کو تیار نہیں۔ لائن میں لگنا ہو تو ہمیں جلدی یاد آجاتا ہے کہ ہم “خاص” ہیں، ٹریفک کا سگنل ملے تو ہم سمجھتے ہیں کہ قانون دوسروں کے لیے ہے، پھینکے ہوئے کچرے کے ڈھیر کو دیکھ کر ہم حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں مگر چپکے سے اپنی ریپر، بوتل یا ٹشو بھی وہیں پھینک دیتے ہیں۔ ہم ہر جگہ نظام پر تنقید کرتے ہیں مگر اپنے اندر نظم پیدا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
یہی وہ چیز ہے جو ترقی یافتہ قوموں کو ہم سے آگے لے گئی۔ دنیا نے جاپان، جرمنی، ملائیشیا اور ترکی کو دیکھا—یہ سب ممالک جنگوں، معاشی تباہیوں اور سیاسی بحرانوں سے گزرے، مگر انہوں نے اپنی تباہی کو اپنی پہچان نہیں بننے دیا۔ انہوں نے اپنے رویے بدلے، اپنے رہن سہن کے اصول تبدیل کیے، اداروں میں ڈسپلن لائے اور سب سے بڑھ کر اپنی روزمرہ زندگی میں ایمانداری اور ذمہ داری کو بنیاد بنایا۔ وہاں جذبات سے زیادہ نظام کو اہمیت دی گئی۔ وہاں لوگ سوشل میڈیا پر نہیں لڑے، بلکہ فیکٹریوں، لیبارٹریوں اور یونیورسٹیوں میں لڑے۔
پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے، مگر اس کے لیے لازم ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ قومیں نعروں سے نہیں بنتیں، جذباتی تقریروں یا ٹوئٹر ٹرینڈز سے نہیں بنتیں۔ قومیں کسی لیڈر کے انتظار میں بیٹھ کر بھی نہیں بنتیں اور نہ ہی صرف دعا مانگنے سے کوئی ملک ترقی کرتا ہے۔ قومیں قانون سے بنتی ہیں، نظام سے بنتی ہیں، علم سے بنتی ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے فیصلوں اور ایمانداریوں سے بنتی ہیں۔
اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی جگہ ایک چھوٹا سا انقلاب شروع کر دے—سڑک پر، دفتر میں، دکان پر، ٹریفک میں، میٹنگ میں، گلی کی صفائی میں اور وقت کی پابندی میں—تو 22 کروڑ چھوٹی نیکیاں مل کر ایک بڑی قومی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ جب تک ہم یہ نہیں سمجھیں گے کہ تبدیلی ہم میں سے ہر فرد سے شروع ہوتی ہے، تب تک ہمارے حالات نہیں بدلیں گے۔
یہ ملک ہمارے ہاتھ میں ہے، اور اس کا مستقبل بھی ہمارے فیصلوں پر منحصر ہے۔ سوال یہ نہیں کہ پاکستان کب بدلے گا؟ سوال یہ ہے کہ ہم کب بدلیں گے؟ اور شاید اسی دن سے پاکستان کی تقدیر بدلنے لگے گی۔