تعلیم وہ چراغ ہے جو انسان کے ذہن میں روشنی اور دل میں وسعت پیدا کرتا ہے۔ یہ نہ جنس کی قید چاہتا ہے، نہ صحت اور معذوری کی شرط مانگتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے کے کچھ گوشے آج بھی اس حقیقت سے انجان ہیں کہ علم ہر انسان کی فطری ضرورت ہے،اور معذور خواتین تو اس روشنی کی سب سے زیادہ محتاج ہوتی ہیں۔ان کے دل میں بھی وہی خواب پنپتے ہیں،وہی امیدیں روشن ہوتی ہیں جو ہر دوسرے انسان کے دل میں ہوتی ہیں،لیکن معاشرتی تعصبات ان کے راستے میں دیوار بن کر کھڑے رہتے ہیں۔
خواتین کی تعلیم کی بنیادی اہمیت
خواتین کی تعلیم محض ایک سماجی ضرورت نہیں بلکہ ایک پوری نسل کی تعمیر کا مقدمہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت صرف اپنا وجود نہیں سنوارتی بلکہ اپنے گھر کے ہر فرد کو روشنی کا حصہ دار بناتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آگاہی کی روشنی ہوتی ہے،اس کی سوچ میں وسعت اور اس کے عمل میں ذمہ داری۔
تعلیم عورت کو وہ زبان دیتی ہے جس سے وہ اپنے حق کی بات کر سکتی ہے،وہ شعور دیتی ہے جس سے وہ ناانصافی کو پہچان سکے،اور وہ ہمت دیتی ہے جس سے وہ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کر سکے۔
عالمی سطح پر بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ خواتین کی تعلیم کسی بھی قوم کے لیے ترقی کا دروازہ کھولتی ہے۔ صحت، معاشرت، معیشت اور تہذیب ہر شعبہ تعلیم یافتہ خواتین کے دم سے مضبوط ہوتا ہے۔
معذور خواتین دوہری محرومی کی تصویر
معذور خواتین کو محض تعلیم سے محروم نہیں رکھا جاتا بلکہ ان پر دوہرا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ایک طرف عورت ہونے کی بنیاد پر امتیازدوسری طرف معذوری کے باعث معاشرتی کم نظمی ہمارے یہاں اکثر یہ تصور رائج ہے کہ معذور لڑکیوں کی تعلیم “وقت ضائع کرنا” سمجتھے ہے۔جیسے ان کا مستقبل پہلے سے طے ہو چکا ہو۔تعلیمی اداروں میں سہولیات کی کمی، مناسب اساتذہ کا نہ ہونا،بریل یا آڈیو مواد کا فقدان، اور گھر والوں کے معاشی مسائل ان کے تعلیمی سفر کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا معذوری انسان کے ذہن، دل، جذبے اور صلاحیت کو قید کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں!
معذوری کے باوجود اعلیٰ مقام پانے والی خواتین حوصلے کی روشن مثالیں
دنیا کی تاریخ چند ایسی خواتین کے نام سے جگمگاتی ہے جنہوں نے اپنی کمزوری کو طاقت بنا لیا۔
ہیلن کیلر بینائی اور سماعت دونوں سے محروم تھی، مگر علم کی پیاس نے انہیں ایسا راستہ دکھایا کہ وہ عالمی سطح پر انسانیت کی آواز بن گئیں۔ان کی تحریروں میں وہ روشنی ہے جو اندھوں تک بھی پہنچتی ہے۔
اس طرح پاکستان کی فرحدہ بی بی، وہیل چیئر پر بیٹھ کر باکسنگ کی دنیا میں اپنا نام بنایا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ جسمانی معذوری ہمت کو کمزور نہیں کرتی بلکہ ارادے کو مزید مضبوط بناتی ہے۔
اسی طرح منیٰ نذیربھی ہے۔جو بینائی کھو بیٹھیں، مگر ان کی بصیرت نے انہیں معلمہ، وکیل اور سماجی راہنما بنا دیا۔وہ آج بھی سینکڑوں لڑکیوں کے لیے امید کا چراغ ہیں۔
اور دنیا کی بلند ترین اڑان کی مثال جیسیکا کوکس ہیں، جو ہاتھوں کے بغیر جہاز اڑا کر یہ ثابت کر گئیں کہ پرواز بازوؤں سے نہیں، ارادے سے ہوتی ہے۔
یہ خواتین اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ معذوری راستے کا اختتام نہیں، بلکہ کئی دفعہ یہ انسان کو وہ طاقت دے دیتی ہے جس سے وہ آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن جاتا ہے۔
معذور خواتین کی تعلیم کے لیے ضروری اقدامات
اگر ہم واقعی ایک ترقی یافتہ معاشرہ بننا چاہتے ہیں۔ تو ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔
تعلیمی اداروں کو معذور خواتین کے لیے قابلِ رسائی بنایا جائے، خصوصی اساتذہ اور مناسب تعلیمی وسائل مہیا کیے جائیں، اور حکومت ان کے لیے اسکالرشپس اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔معاشرے کو یہ سمجھنا ہوگا کہ معذور خواتین ہمارے لیے بوجھ نہیں بلکہ طاقت اور حوصلے کی علامت ہیں۔
اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
سماجی رویوں کی اصلاح
معاشرے کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ معذور خواتین بھی مکمل صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں۔ میڈیا، مدارس، مساجد اور اساتذہ اس شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
قانونی تحفظ اور عملدرآمد
حکومت کو چاہیے کہ معذور افراد کے حقوق کے قوانین پر سختی سے عمل کرائے اور تعلیمی اداروں میں معذور طالبات کے لیے خصوصی کوٹہ مقرر کرے۔
تعلیمی اداروں کو قابل رسائی بنانا
ہر اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں معذور طالبات کے لیے مناسب انفراسٹرکچر، جیسے ریمپ، لفٹ، ماہر اساتذہ اور مخصوص تعلیمی مواد کی فراہمی لازمی بنائی جائے۔
خصوصی تعلیمی مواد اور تربیت
بریل کتابیں، آڈیو لیکچرز،اشاروں کی زبان میں ویڈیوز اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ہر قسم کی معذوری رکھنے والی طالبات آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔
مالی معاونت اور اسکالرشپس
معذور خواتین کے لیے خصوصی اسکالرشپس اور مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ معاشی تنگ دستی ان کے تعلیمی سفر میں رکاوٹ نہ بنے۔
پیشہ ورانہ تربیت
فنی اور پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے انہیں معاشی میدان میں بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ خودمختار زندگی بسر کر سکیں۔
معذور خواتین کی تعلیم ان پر کوئی احسان نہیں، بلکہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ ہم ان کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرکے دراصل اپنے معاشرے کے روشن مستقبل کو دھندلا رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ کا زاویہ بدلیں، علم کے دروازے کھولیں، اور ہر معذور خاتون کو وہ مقام دیں جس کی وہ حق دار ہے۔ کیونکہ جب ایک معذور عورت تعلیم کے نور سے منور ہوتی ہے تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بدلتی ہے بلکہ معاشرے کی تقدیر بھی روشن کر دیتی ہے۔