صوبہ ہزارہ: تاریخی، سیاسی،آئنی، انتظامی اور اقتصادی جائزہ

ہزارہ پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع ایک تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی طور پر منفرد خطہ ہے، جس کی حیثیت قدیم ادوار سے مختلف تہذیبوں، سلطنتوں اور سیاسی تحریکوں کے مرکز کے طور پر مسلم رہی ہے۔ اس خطے کی آبادیاں گجر، اعوان، تنولی، دھونڈ، کشمیری، سید اور پٹھان جیسے نسلی و لسانی گروہوں پر مشتمل ہیں، جو صدیوں سے مذہبی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ رہتے آئے ہیں۔

‎تاریخ کے اوراق کے مطابق ہزارہ کا نام ممکنہ طور پر ترک النسل قبائل “کرلاگھس” یا “کرلوکی منگ” سے منسوب ہے، جو 14ویں صدی میں برصغیر میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد تنولی، جدون، سواتی، یوسفزئی اور سید خاندانوں نے اس خطے میں مستقل موجودگی قائم کی۔ مغل، درانی افغان، سکھ اور آخرکار انگریز اس خطے پر حکمران رہے، یہاں تک کہ 1849 میں یہ خطہ باقاعدہ برطانوی راج کے ماتحت آ گیا۔ انگریزوں نے ہزارہ ضلع تشکیل دیا، جسے ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہری پور کی تحصیلوں میں تقسیم کر کے پنجاب کے ساتھ منسلک کیا۔

‎1901 میں صوبہ سرحد (NWFP) کے قیام کے بعد ہزارہ اس نئے صوبے کا حصہ بنا۔ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہزارہ کو ڈویژن کا درجہ ملا، اور وقت کے ساتھ ہری پور، بٹگرام، اپر و لوئر کوہستان، تورغر اور کولائی پالس جیسے اضلاع وجود میں آئے۔ 2000 میں ڈویژنز ختم کیے گئے، تاہم 2008 میں دوبارہ بحالی کے بعد ہزارہ ڈویژن اپنی موجودہ انتظامی حیثیت میں قائم ہوگیا۔

‎پاکستان کی تحریکِ آزادی اور بعد از قیام پاکستان))( کردار

‎ہزارہ سیاسی، سماجی اور مذہبی تحریکوں کا فعال مرکز رہا ہے۔ سکھوں اور انگریزوں کے خلاف سید احمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل کی قیادت میں لڑی جانے والی جہادی تحریک میں ہزارہ کے مجاہدین نے صفِ اوّل کا کردار ادا کیا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں بھی ہزارہ کے عوام نے بغاوتوں، محاذ آرائیوں اور عملی حمایت کے ذریعے بھرپور حصہ لیا۔

‎تحریک خلافت (1918–1924) اور تحریک ہجرت کے دوران مانسہرہ اور اس کے دیہی حلقے انتہائی سرگرم رہے، جہاں مولانا عرفان، مولانا اشفاق، مولانا مقبول الرحمان اور محمد اکبر خان قریشی جیسے رہنماؤں نے عوام میں سیاسی شعور پیدا کیا۔ اس دوران ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں مجلس احرار اسلام، خاکسار تحریک اور بعد ازاں مسلم لیگ نے مضبوط تنظیمی ڈھانچے قائم کیے، جنہوں نے کانگریس کے اثرات کو کم کیا اور مسلمانانِ ہزارہ کو وطنِ عزیز کے قیام کی جانب منظم کیا۔

‎ہزارہ میں پان اسلامزم کے نظریات بھی گہرا اثر چھوڑ گئے، جنہیں سید جمال الدین افغانی نے عام کیا اور جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں عالمی بھائی چارے اور سیاسی بیداری کو جنم دیا۔

‎برطانوی دور میں ہزارہ ضلع ابتدا میں پنجاب کے ماتحت تھا، پھر 1901 میں اسے صوبہ سرحد میں شامل کیا گیا، جس کے شمالی حصے ہزارہ ٹرائبل ایجنسی کہلائے۔ بعد ازاں ریاستِ اَمب اور پھلرا بھی بتدریج ہزارہ میں ضم ہوئیں۔
‎ون یونٹ (1955–1970) کے دوران ہزارہ مغربی پاکستان کا حصہ رہا۔ پھر 1970 میں عام صوبائی سطح پر بحالی کے ساتھ ہزارہ کو پشاور ڈویژن کا حصہ بنایا گیا، اور پھر ہزارہ ڈویژن کا درجہ ملا جس کا صدر مقام ایبٹ آباد مقرر ہوا۔ 1976 میں مانسہرہ مکمل ضلع بنا، بعد میں ہری پور، بٹگرام، اپر کوہستان، لوئر کوہستان، تورغر اور کولائی پالس بھی الگ اضلاع میں تبدیل ہوئے۔

‎ہزارہ میں ہمیشہ صوبائی شناخت اور بہتر انتظامی حیثیت کے لیے آواز بلند کی گئی۔ 21 مارچ کو خیبر پختونخوا اسمبلی کی منظور شدہ قرارداد اس سلسلے کی اہم ترین پیش رفت ہے، جو ہزارہ کے عوامی مطالبے اور تاریخی شناخت کی آئینی توثیق کا درجہ رکھتی ہے۔ یوں ہزارہ نہ صرف اپنے تاریخی و تہذیبی ورثے کے باعث ممتاز ہے بلکہ پاکستان کی تحریکِ آزادی، مذہبی و سیاسی تحریکوں اور بعد از قیامِ پاکستان آئینی جدوجہد میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی بنا پر قومی تاریخ میں ناقابلِ فراموش اہمیت رکھتا ہے۔

(‎نسلی و لسانی تنوع، مقامی زبانیں اور ثقافت)

‎ہزارہ ڈویژن ایک نسلی و لسانی اعتبار سے متنوع خطہ ہے، جہاں مختلف قبائل اور قومیں صدیوں سے آباد ہیں۔ اس خطے میں گجر، اعوان، تنولی، دھونڈ، کشمیری، سید اور پٹھان اہم نسلی گروہ ہیں۔

‎تاریخی طور پر، گجر قوم ہزارہ کے قدیم آبادیوں میں شامل ہے اور یہ زیادہ تر ہری پور، مانسہرہ اور بٹگرام میں آباد ہیں۔ گجروں کی ایک منفرد زبان گجری ہے، جو ان کے ثقافتی ورثے، روایات اور روزمرہ زندگی میں نمایاں ہے۔ دیگر قبائل کے ساتھ رہتے ہوئے گجروں نے اپنی ثقافت، موسیقی، شادی بیاہ کے رسم و رواج، اور میلوں ٹھیلوں میں بھرپور حصہ لیا، جس سے ہزارہ کا ثقافتی نقشہ متنوع اور جاذب نظر بن جاتا ہے۔

‎ہزارہ میں مقامی زبانیں بھی مختلف ہیں۔ ہزارگی، ہندکو، پختو اور کشمیری زبانیں مقامی کمیونٹی میں رائج ہیں، اور ہر زبان اپنی ادبی، ثقافتی اور سماجی پہچان رکھتی ہے۔ گجر، ہندکو بولنے والے اور دیگر قبائل کے رسوم و رواج، لوک گیت، تہوار، دستکاری اور معاشرتی روایات مل جل کر ہزارہ کی متنوع ثقافتی شناخت تشکیل دیتے ہیں۔

‎اس کے علاوہ، مذہبی رسومات، شادی بیاہ کے طریقے، لوک کھیل اور محافل موسیقی بھی مقامی ثقافت کا حصہ ہیں، جو نسلوں سے منتقل ہوتی رہی ہیں۔ سماجی و معاشرتی سطح پر، ہزارہ کی کمیونٹی میں مقامی تنظیمیں، سیاسی جدوجہد اور کمیونٹی کی شرکت نمایاں ہیں۔ مقامی سطح پر کمیونٹی کے رہنما، ترقیاتی فورمز، اور علاقائی تنظیمیں پانی، بجلی، تعلیم اور صحت کے منصوبوں میں حصہ لیتی ہیں۔ سیاسی جدوجہد میں مقامی افراد نے ہمیشہ اپنے حقوق اور وسائل کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی ہے، خاص طور پر تربیلا ڈیم، داسو ہائیڈرو اور دیگر ہائیڈرو منصوبوں کے اثرات کے سلسلے میں۔

(‎جغرافیہ، حدودِ اربعہ، آبادی، نسلی و لسانی ڈھانچہ، )(لٹریسی ریٹ اور تحریکِ پاکستان میں حصہ

‎ہزارہ ڈویژن پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے اور اس کی جغرافیائی حدود میں ضلعی سطح پر ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، بٹگرام، اپر و لوئر کوہستان، تورغر اور کولائی پالس شامل ہیں۔ شمال میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی پہاڑی سلسلے، جنوب میں پنجاب، مشرق میں آزاد کشمیر اور مغرب میں خیبرپختونخوا کے دیگر ڈویژنز ہیں۔ خطے کی شمالی سرحدیں پہاڑی اور برف پوش ہیں، جبکہ جنوبی حدود ہری پور اور بٹگرام کے جنوبی اضلاع تک پھیلی ہیں۔

‎آبادی کے لحاظ سے ہزارہ میں تقریباً ۵ لاکھ سے زائد خاندان آباد ہیں، اور ۲۰۲۳ کے اندازے کے مطابق یہاں کل آبادی تقریباً ۶.۵ ملین ہے۔ اہم نسلی گروہ گجر، اعوان، تنولی، سواتی، سید اور پشتون ہیں۔ مقامی زبانیں ہندکو، گوجری، کوہستانی اور پشتو ہیں، اور خطے میں لٹریسی ریٹ تقریباً ۷۸ فیصد ہے، جس میں خواتین کی شرح تقریباً ۷۰ فیصد اور مردوں کی ۸۵ فیصد ہے۔

‎تحریک پاکستان میں ہزارہ کے عوام نے بھرپور حصہ لیا۔ سولجرز کی سپلائی، مسلم لیگ کی سرگرمیاں اور 1940–1947 کے دوران سیاسی و مذہبی جدوجہد میں ہزارہ کے رہنماؤں اور عوام نے نمایاں کردار ادا کیا۔

‎صوبہ ہزارہ کا قیام: لسانی نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر

‎ہزارہ صوبہ کے قیام کی مخالفت کرنے والوں کا سب سے بڑا دلیل یہ ہے کہ یہ تحریک لسانی بنیادوں پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق ہزارہ میں ہندوکو سپیکرز کی اکثریت ہے اور پٹھانوں کی اقلیت ہے، اس لیے یہ مطالبہ ایک لسانی رجحان کے تحت کیا جا رہا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ شروع دن سے لے کر اب تک صوبہ ہزارہ کا مطالبہ صاف، واضح اور مکمل طور پر انتظامی بنیادوں پر ہے۔ اس مضمون میں دلائل، تاریخی پس منظر اور موجودہ حقائق کی روشنی میں یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ صوبہ ہزارہ کی تحریک نسلی یا لسانی نہیں بلکہ انتظامی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات پر مبنی ہے۔

‎پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع ہزارہ خطہ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے منفرد ہے۔ یہ خطہ قدیم ادوار سے مختلف تہذیبوں، سلطنتوں اور سیاسی تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں آباد نسلی گروہ گجر، اعوان، تنولی، دھونڈ، کشمیری، سید اور پٹھان شامل ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہزارہ ہمیشہ علاقائی اور قومی سیاسی جدوجہد میں فعال کردار ادا کرتا رہا ہے۔

‎ہزارہ صوبہ کا مطالبہ موجودہ سیاسی نظام اور وسائل کی تقسیم کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ الگ صوبہ بننے سے مقامی عوام کی ترقی ممکن ہوگی اور پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں شفافیت اور توازن آئے گا۔ تاریخ اور تجربات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب کسی قوم یا خطے کی سیاسی قیادت متحد نہیں ہوتی تو تحریکیں ناکامی کا شکار ہو جاتی ہیں، اس لیے ہزارہ صوبہ کی تحریک کی کامیابی کے لیے قیادت کی یکجہتی اور سیاسی بصیرت لازمی ہے۔

‎ہزارہ ڈویژن میں اہم اضلاع کی اقتصادی، صنعتی، زرعی اور سیاحتی ترقی بھی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ یہ علاقہ الگ صوبے کے لیے بالکل اہل ہے۔ ہری پور میں نمایاں صنعتی زون اور مختلف یونٹس کے ساتھ اہم زرعی پیداوار، معدنی ذخائر اور سیاحتی مقامات موجود ہیں، اور اس سے متوقع سالانہ ریونیو 78,000 ملین روپے بنتا ہے۔ مانسہرہ میں صنعتی یونٹس، زرعی زمین، معدنی وسائل اور سیاحتی مقامات ہیں، متوقع ریونیو 45,500 ملین روپے ہے۔ ایبٹ آباد میں صنعتی سرگرمیاں، زرعی پیداوار، محدود معدنی ذخائر اور سیاحتی مواقع موجود ہیں، ریونیو 31,500 ملین روپے بنتا ہے۔ کوہستان میں محدود صنعتی یونٹس، زرعی سرگرمیاں، معدنی ذخائر اور پہاڑی سیاحت ہیں، ریونیو 12,500 ملین روپے ہے، جبکہ بٹگرام میں صنعتی سرگرمی بہت کم، زرعی پیداوار، معدنی ذخائر اور محدود سیاحتی مواقع ہیں، ریونیو 8,300 ملین روپے بنتا ہے۔ ان اضلاع کا مجموعی سالانہ ریونیو 175,800 ملین روپے ہے، جو واضح کرتا ہے کہ ہزارہ ڈویژن اقتصادی طور پر خود کفیل ہے اور الگ صوبہ بننے کی صورت میں مقامی ترقی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔

‎ہزارہ ڈویژن قدرتی وسائل، معدنیات، توانائی کے منصوبے اور سیاحتی امکانات سے مالا مال ہے۔ تربیلا ڈیم، جو دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے، نہ صرف پاکستان کو برقی توانائی فراہم کرتا ہے بلکہ زرعی آبپاشی اور سیلاب کنٹرول میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس ڈیم کی نصب صلاحیت 4,888 میگاواٹ ہے اور سالانہ بجلی کی پیداوار 17,395 GWh ہے۔ ان وسائل کا مکمل فائدہ ہزارہ کے عوام کو نہیں دیا جاتا، بلکہ بہت سے وسائل کا زیادہ تر استعمال دیگر علاقوں کے لیے کیا جاتا ہے، اس کے باوجود ہزارہ کے عوام کی ترقی کے لیے یہ بنیادی اثاثہ ہیں۔

‎پاکستان میں چار بڑے صوبے اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ہیں، جبکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی اسلام آباد کے انتظامی کنٹرول میں ہیں۔ نئے صوبے بنانے کے مطالبات میں ہزارہ کی علیحدگی ایک اہم کیس ہے، کیونکہ اس سے صوبائی وسائل کی منصفانہ تقسیم، مقامی عوام کی نمائندگی اور وفاقی ڈھانچے میں توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔ صوبہ ہزارہ کے قیام سے نہ صرف اقتصادی ترقی ممکن ہوگی بلکہ صوبائی سطح پر سیاسی اعتماد اور شفافیت میں بھی اضافہ ہوگا۔

‎ہزارہ کی تحریک کی بنیاد تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی حقائق پر ہے۔ یہ تحریک لسانی نہیں بلکہ انتظامی اور سیاسی بنیادوں پر ہے، جس کا مقصد مقامی عوام کو وسائل کی منصفانہ تقسیم، بہتر نمائندگی اور ترقی کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ 1971 کے بعد کے پاکستان میں وفاقی ڈھانچے کی عدم ہم آہنگی نے چھوٹے صوبوں میں عدم تحفظ اور سیاسی عدم توازن پیدا کیا، جس کے باعث ہزارہ صوبہ کا مطالبہ اور بھی اہمیت اختیار کر گیا۔

‎ہزارہ صوبہ کے قیام سے نہ صرف اقتصادی ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ صوبائی سطح پر سیاسی اعتماد، شفافیت اور وفاقی توازن بھی قائم ہوگا۔ نئے صوبے کی بنیاد پر وسائل اور ریونیو کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوگی اور مقامی عوام کو فیصلے سازی میں شامل کر کے سماجی شمولیت بھی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ اس عمل سے نہ صرف تشدد اور مسلح تصادم کے امکانات کم ہوں گے بلکہ مقامی اور قومی سطح پر اعتماد بھی بحال ہوگا۔
‎یہ بھی قابل ذکر ہے کہ صوبہ ہزارہ کے قیام کی حمایت ہزارہ میں رہنے والے اکثریتی پشتون اور پٹھان قبائل کی جانب سے بھی موجود ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مطالبہ نسلی یا لسانی نہیں بلکہ انتظامی، اقتصادی اور سیاسی بنیادوں پر ہے۔

‎ہزارہ صوبہ کی تحریک پاکستان میں نئے صوبائی نقشے اور تنازعات کی روک تھام کے حوالے سے ایک بہترین کیس اسٹڈی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نئے صوبے لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی، اقتصادی اور سیاسی ضرورت پر مبنی ہونے چاہئیں۔ اسٹیک ہولڈرز کے مفادات، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مقامی عوام کی شمولیت کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ اس عمل سے نہ صرف صوبائی سطح پر سیاسی استحکام آئے گا بلکہ قومی سطح پر وفاقی توازن اور شفافیت قائم ہو گی۔

(‎آبی وسائل اور ڈیمز)

‎ہزارہ خطے میں آبی وسائل اور توانائی کے حوالے سے چند بڑے اور فیصلہ کن منصوبے موجود ہیں جن کے اثرات اور فوائد کا انتظام قومی سطح پر ہوتا آیا ہے؛ سب سے بڑا مقام تربیلا ڈیم ہے، جو ہائیڈل پاور کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتا ہے اور اس کی توسیعات سے پیدا ہونے والی اضافی بجلی قومی گرڈ میں شامل کی جاتی ہے، نہ کہ مقامی طور پر۔

‎اسی طرح خانپور ذخیرہ ہری پور/خانپور کے قریب پانی اور مقامی ضروریات کے لیے اہم ہے، مگر اس کا برقی حصہ محدود اور علاقائی ضروریات تک مخصوص ہے۔

‎قومی سطح کے نئے اور زیرِ تعمیر بڑے ہائیڈرو منصوبوں میں داسو ہائیڈرو منصوبہ اور دیامر-بشہ ڈیم شامل ہیں۔ داسو ایک بڑا منصوبہ ہے جس کی پیداواری گنجائش ہزاروں میگاواٹس تک ہے اور یہ صوبہ خیبر پختونخوا کے اندر تعمیر ہو رہا ہے، جبکہ بشہ ڈیم بھی انڈس پر ایک بہت بڑا ذخیرہ اور پاور منصوبہ ہے۔ شمالی/ہزارہ کے قریب بننے والا سکی کناری ڈیم بھی حالیہ برسوں میں فعال ہوا اور اس کی پیداواری صلاحیت بڑی ہے۔

‎تربیلا ڈیم کی تعمیر سے تقریباً ۱۳۵ گاؤں زیرِ آب آئے اور اندازاً ۹۶,۰۰۰ افراد بے گھر ہوئے۔ حکومت نے متاثرین کو نقد معاوضہ ادا کیا، اور قانونی فریم ورک میں رہائش اور زرخیز زمین کے بدلے متبادل زمین یا پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا، مگر بہت سے متاثرین نے مناسب ری سیٹلمنٹ نہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ حالیہ برسوں میں متاثرہ گھرانوں کے لیے مالی پیکجز فراہم کیے گئے، مگر مکمل ری سیٹلمنٹ ابھی جاری ہے۔

‎اہم ڈیمز کی تفصیلی جدول

‎ڈیم کا نام محل وقوع سالِ تکمیل پانی کا ذخیرہ بجلی کی صلاحیت متاثرین اضافی معلومات

‎تربیلا Haripur / Hazara, KP ۱۹۷۴ 11.62 بلین کیوبک میٹر 3,478 تقریباً ۹۶,۰۰۰ افراد، ۱۳۵ گاؤں زیرِ آب 4th & 5th توسیع کے بعد بجلی قومی گرڈ میں جاتی ہے، ری سیٹلمنٹ مکمل نہ ہوئی

‎خانپور Haripur, KP ۱۹۸۳ 96.5 ایم سی ایم تقریباً ۴ مقامی سطح پر کچھ متاثرین بنیادی طور پر پانی کی سپلائی اور مقامی ضروریات

‎سکی کناری شمالی/ہزارہ کے قریب ۲۰۲۲–فعال چھوٹا درمیانہ ذخیرہ 884 محدود / زیرِ نگرانی جاری پیداواری مرحلہ، بجلی قومی گرڈ میں جاتی ہے

‎داسو ہائیڈرو Upper Kohistan, KP مرحلہ اول ۲۰۲۵ تک بڑا ذخیرہ 4,320 متاثرہ گھرانوں کو ۳.۵ ملین روپے فی خاندان ہائیڈرو پیداوار مکمل ہونے کے بعد بجلی قومی گرڈ میں شامل

‎دیامر-بشہ Gilgit-Baltistan / KP سرحد زیرِ تعمیر 8.1 بلین کیوبک میٹر 4,500 متاثرین احتجاجی، ۳۱ نکاتی مطالبہ چارٹر مستقبل میں بجلی قومی گرڈ میں شامل، ری سیٹلمنٹ جاری

(‎سیاحت اور مقامی معیشت)

‎ہزارہ ڈویژن پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع ایک قدرتی اور ثقافتی اعتبار سے نہایت اہم خطہ ہے، جس میں قدرتی حسن، تاریخی مقامات، پہاڑ، وادیاں، جھیلیں، آبشاریں اور دریا شامل ہیں۔ شمالی پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کی چوٹیوں سے گھرا یہ خطہ اپنی جغرافیائی خصوصیات اور مناظر کی بدولت ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کو متوجہ کرتا ہے۔

‎سیاحت پاکستان میں اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع کے فروغ کا اہم ذریعہ ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں سیاحتی صنعت ہزاروں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور غیر ہنر مند، نیم ہنر مند اور ہنر مند کارکنوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ شمالی علاقوں میں آمد و رفت کے فروغ سے مقامی ہوٹلز، ریسٹورانٹس، ٹریول ایجنسیوں اور تفریحی مراکز نے ترقی کی ہے، اور اس سے ہزارہ کے ہر ضلع میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

‎ہزارہ ڈویژن کے اہم سیاحتی مقامات میں وادی ایبٹ آباد، نتھیاگلی، گلیات، وادی کاغان، مانسہرہ، بالاکوٹ، اوگی، وادی سرن، وادی کونش، کوہ بھلیجہ، موسی کا مصلی، جھیل سیف الملوک، جھیل لولوسر، دریائے سندھ، دریائے کنہار، خان پور ڈیم، تربیلا ڈیم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑ شامل ہیں۔ یہ علاقے قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل ہیں، جہاں ہر سال ملکی و غیر ملکی سیاح آتے ہیں اور مختلف سرگرمیوں جیسے ٹریکنگ، اسکیئنگ، مہم جوئی اور روایتی تہواروں میں حصہ لیتے ہیں۔

‎حکومت کے اقدامات، جیسے قراقرم شاہراہ کی ترقی، سڑکوں کی مرمت، ہوٹلنگ اور سیاحتی سہولیات کی فراہمی، اس شعبے کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوئے۔

(‎صنعتی، معدنی اور قدرتی وسائل)

‎ہزارہ ڈویژن پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع ایک صنعتی، معدنی اور ثقافتی اعتبار سے نہایت اہم خطہ ہے، جہاں صنعتی زون، معدنی ذخائر، جنگلات اور پہاڑ مل کر اس خطے کی اہمیت کو بڑھاتے ہیں۔

‎حطار صنعتی زون، جو ہری پور ضلع میں قائم ہے، پاکستان کے اہم صنعتی مراکز میں سے ایک ہے اور اس کی بنیاد 1980 کی دہائی میں رکھی گئی۔ اس زون میں تقریباً 300 سے 400 صنعتی یونٹس قائم ہیں، جو ٹیکسٹائل، فوڈ اینڈ بیوریجز، کیمیکل، سیمنٹ، ادویات، مینرل پراسیسنگ اور دیگر صنعتوں پر مشتمل ہیں۔ ان صنعتوں میں ہزاروں مرد و خواتین ملازمین کام کرتے ہیں،بعض رپورٹس کے مطابق 40,000 سے زائد افراد کو براہِِ راست اور بلاواسطہ روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔

‎2019 میں ایک منصوبے کے تحت حطار صنعتی زون کو “گرین انڈسٹری زون” کے طور پر فروغ دینے کی کوشش کی گئی، جس میں درخت لگانے، گرین بیلٹس قائم کرنے اور صنعتی آلودگی کے منفی اثرات کو کم کرنے کی حکمتِ عملی شروع کی گئی۔

‎ہری پور کے تحت واقع Haripur Forest Division پورے جنگلاتی زون کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کا رقبہ تقریباً 210,316.92 ہیکٹر ہے، جس میں Reserved Forests، Guzara Forests اور Protected Forests شامل ہیں؛ مثال کے طور پر Reserved Forests کا رقبہ تقریباً 13,918 ہیکٹر ہے۔

‎یہ جنگلاتی زون moist‑temperate، chir/pine اور sub‑tropical broadleaved زون کو محیط ہے، یعنی پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر وادیوں تک درختوں کا گہرا جنگل موجود ہے۔ یہ جنگلات نہ صرف ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے لیے قیمتی ہیں بلکہ لکڑی، جنگلاتی وسائل، آکسیجن، پانی کے ذخائر اور ماحولیاتی توازن فراہم کرتے ہیں۔

‎ہزارہ ڈویژن کے مختلف اضلاع جیسے ہری پور، مانسہرہ، بٹگرام، اپر کوہستان اور لوئر کوہستان میں قیمتی پتھروں اور معدنیات کی کانیں موجود ہیں، جن میں ماربل، فاسفیٹ، کرومائٹ، چونا پتھر اور دیگر دھاتی و غیر دھاتی معدنیات شامل ہیں۔ ان کانوں سے خطے کو ہر سال اربوں روپے کی آمدن حاصل ہوتی ہے، جو مقامی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور صنعتی و تعمیراتی شعبے میں استعمال ہوتی ہیں۔

‎تمام اضلاع کے متوقع سالانہ ریونیو کے تخمینے یہ ہیں: ہری پور 78,000 ملین روپے، مانسہرہ 45,500 ملین روپے، ایبٹ آباد 31,500 ملین روپے، کوہستان 12,500 ملین روپے اور بٹگرام 8,300 ملین روپے، جس کا مجموعی سالانہ ریونیو تقریباً 175,800 ملین روپے یا 175.8 ارب روپے بنتا ہے۔ یہ تخمینہ صرف چند نمایاں صنعتوں اور شعبوں پر مبنی ہے اور اس میں ہائیڈرو پاور کی پیداوار، عوام سے وصول ہونے والے ڈائریکٹ ٹیکسز، زمین و اراضی پر ٹیکسز، تحصیل و ضلع کی ایڈمنسٹریشن کے ٹیکسز، ایف بی آر کی آمدنی اور سب سے اہم، سیاحت شامل نہیں ہیں۔

‎اضلاع ہزارہ کی معدنی وسائل کا جامع جائزہ

‎ضلع ہری پور ہزارہ ڈویژن میں صنعتی اور معدنی شعبوں میں نمایاں ہے، جہاں سیمنٹ، کیمیکل پلانٹس، ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ، سٹیل، لیدر، مشروبات اور سیرامکس کی صنعتیں فعال ہیں۔ برآمدات میں سیمنٹ، سگریٹ اور ٹیکسٹائل شامل ہیں۔ حطار اسپیشل اکنامک زون میں جدید صنعتی یونٹس کے لیے سہولیات فراہم کی گئی ہیں اور دریائے سندھ سے ہائیڈرو الیکٹرک صلاحیت تقریباً 2,370 میگاواٹ ہے، جس میں سے مقامی طلب 100 میگاواٹ ہے، جبکہ باقی 2,270 میگاواٹ قومی گرڈ یا پڑوسی ممالک کو برآمد کی جا سکتی ہے۔ معدنی ذخائر میں ماربل، جپسم، چونا پتھر، بارٹیز اور دیگر قیمتی مواد شامل ہیں، جبکہ جنگلات کا رقبہ تقریباً 210,316 ہیکٹر ہے، جو کاربن کریڈٹ کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔

‎ضلع مانسہرہ معدنی اور توانائی کے شعبوں میں اہم ہے، جہاں گرینائٹ کے 8 بلین ٹن، ماربل کے 468 ملین ٹن، کرومائٹ، ڈولومائٹ اور فیلڈ اسپار کے ذخائر موجود ہیں۔ توانائی کے منصوبے جیسے ناران ہائیڈرو پاور (188 میگاواٹ) اور باٹا کنڈی (96 میگاواٹ) سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ سیاحتی شعبے میں ناران، کاغان، جھیل سیف الملوک اور دیگر مقامات کی سالانہ آمدنی لاکھوں روپے میں ہے۔

‎ایبٹ آباد میں معدنی ذخائر میں ڈولومائٹ 15,400 ٹن، فاسفیٹ 125,327 ٹن، صابن پتھر 83,389 ٹن، چونا پتھر 253,959 ٹن، لوہا 2,835 ٹن، گریفائٹ 410 ٹن، ہیمیٹائٹ 450 ٹن، بارٹیز 251 ٹن، کوئلہ 962 ٹن، ماربل 360 ٹن، لیٹریٹ 19,150 ٹن، اینٹیمونی 28 ٹن، تانبا 14 ٹن، سلیکا ریت 7,835 ٹن اور میگنیسائٹ 6,860 ٹن شامل ہیں۔ زرعی شعبے میں پیداوار کے ساتھ ساتھ لائیو اسٹاک میں تقریباً 0.76 ملین جانور ہیں، یومیہ دودھ کی پیداوار 4.2 ملین لیٹر اور سالانہ 890 ملین لیٹر ہے، جس سے مقامی اور قومی سطح پر ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ جنگلات 55,000 ہیکٹر پر محیط ہیں۔

‎کوہستان میں ہائیڈرو پاور کی مجموعی صلاحیت 2,467 میگاواٹ ہے، جس میں سپٹ گاہ لوئر 496 میگاواٹ، لوئر پالاس 665 میگاواٹ، مڈل سپٹ گاہ 489 میگاواٹ، مڈل پالاس 398 میگاواٹ، اپر سپٹ گاہ 252 میگاواٹ اور اپر پالاس 157 میگاواٹ شامل ہیں، جبکہ Dasu Hydropower Project زیرِ تعمیر ہے۔ لائیو اسٹاک اور جنگلات کے شعبے میں بھی سالانہ ریونیو لاکھوں روپے میں ہے۔

‎بٹگرام میں الائی کھوار پاور پروجیکٹ 121 میگاواٹ مکمل ہو چکا ہے اور نندیہار کھوار میں مزید 12.3 میگاواٹ منصوبے زیرِ عمل ہیں۔ معدنیات میں لوہا 7,000 ٹن، فیلڈ اسپار 485 ٹن اور گرینائٹ 270 ٹن شامل ہیں۔ زرعی شعبے کی پیداوار کے ساتھ ساتھ لائیو اسٹاک سے سالانہ متوقع ریونیو تقریباً 3.6–3.8 ارب روپے ہے۔

‎ہزارہ ڈویژن کے تمام اضلاع اپنی صنعتی، معدنی، توانائی اور لائیو اسٹاک کی پیداوار کی بدولت مقامی اور قومی سطح پر نمایاں ریونیو فراہم کر رہے ہیں، مگر موجودہ انتظامی ڈھانچے میں مقامی ترقی اور وسائل کی تقسیم میں مناسب حصہ نہیں دیا جاتا۔

‎یہ محتاط تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر ہر صنعت، پیداوار، ٹیکس اور سیاحتی آمدنی کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہزارہ ایک خود مختار صوبہ کے طور پر کسی سے قرض یا ادھار لیے بغیر اپنے تمام اخراجات برداشت کر سکتا ہے اور مکمل اقتصادی خودمختاری کے ساتھ فعال رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کی صنعتی، زرعی، معدنی، توانائی اور سیاحتی پیداوار کا مجموعہ ایک مضبوط اور متوازن ریونیو جنریشن کا مظہر ہے، جو خطے کو خود کفیل اور ترقی یافتہ صوبے کے طور پر ابھارتا ہے اور کثیر جہتی اقتصادی اور صنعتی مرکز کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔

‎ہزارہ صوبہ تحریک: ایک تاریخی اور سیاسی جائزہ

‎ہزارہ صوبہ تحریک کی ابتدا 1957 میں وکیل مفتی ادریس کے ذریعے ہوئی، تاہم اس وقت یہ تحریک فوری کامیابی حاصل نہ کر سکی کیونکہ ایوب خان کے دور میں ون یونٹ اسکیم نافذ تھی، جس نے صوبائی شناخت کے مطالبات کو دبایا۔ 1980 کی دہائی میں قاضی اظہر نے کراچی میں ہزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی تاکہ ہزارہ قوم کی شناخت اور الگ صوبے کے مطالبے کو تقویت دی جا سکے، لیکن نسلی بنیادوں پر سیاسی تقسیم اور دیگر گروہوں کی مخالفت کی وجہ سے عوامی حمایت مکمل نہ ہو سکی۔ 1987 میں مرحوم ملک آصف ایڈووکیٹ نے "ہزارہ قومی محاذ” (HQM) قائم کیا اور عوامی سطح پر ہزارہ کے الگ صوبے کے مطالبے کو فعال بنایا، جس نے

2010 میں 18 ویں ترمیم کے تحت صوبہ سرحد کا نام خیبرپختونخواہ رکھ دیا گیا، جس کے خلاف ہزارہ ڈویژن میں مظاہرے اور شٹر ڈاؤن ہڑتالیں شروع ہوئیں۔ اس دوران دس افراد ہلاک اور تقریباً 200 زخمی ہوئے، جبکہ شاہراہ ریشم کئی روز تک بند رہی اور اربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا۔ اسی سال بابا حیدر زمان کو تحریک صوبہ ہزارہ کا سربراہ بنایا گیا، اور اس وقت ہزارہ کے تمام اضلاع کی سیاسی قیادت، چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتی ہو، بابا حیدر زمان کی قیادت میں اکٹھے ہوئے۔ ایبٹ آباد میں شہادتوں کے بعد انہوں نے ہزارہ بھر میں احتجاجی مظاہرے اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا جو کوہستان سے آغاز ہوا، اور لانگ مارچ ایبٹ آباد اور ہری پور جھاری تک جاری رہا۔ اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بھی مظاہرے کیے گئے اور ہر ضلع میں ایک کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔

‎تحریک کے بڑھنے کے بعد بابا حیدر زمان کی قیادت میں جنوبی پنجاب صوبہ تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ اور کراچی میں ایم کیو ایم کے ساتھ ملاقات ہوئی، اور صوبوں کے قیام کے لیے باہمی تعاون کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی اہم مرحلے پر، ممبر قومی اسمبلی مانسہرہ سے سردار شاہجہان یوسف، جو کہ تحریک صوبہ ہزارہ کے سربراہ سردار محمد یوسف کے فرزند ہیں، نے قومی اسمبلی میں ہزارہ صوبے کے قیام کے لیے آواز بلند کی اور اس وقت کی حکومت کے ظلم کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ وہ پہلے رکن قومی اسمبلی تھے جنہوں نے ایوان میں ہزارہ کے قیام کے لیے باضابطہ احتجاج کیا۔

‎آغاز میں بابا حیدر زمان نے تحریک صوبہ ہزارہ کو غیر سیاسی پلیٹ فارم کی شکل میں برقرار رکھا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما شامل تھے اور صرف صوبے کے اصولی مطالبے پر کام کیا گیا۔ بعد ازاں، عام انتخابات 2013 کے قریب آتے ہی بابا حیدر زمان نے تحریک صوبہ ہزارہ کو بطور سیاسی پارٹی رجسٹر کروایا، جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی ہزارہ قیادت نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا کیونکہ وہ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتی تھی۔ تحریک نے 2013 کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیابی حاصل نہیں کی، اور خود بابا حیدر زمان بھی اپنی نشست ہار گئے۔ اس کے بعد ہزارہ کی باقی سیاسی قیادت نے ایک میٹنگ کے بعد نئی تحریک "صوبہ ہزارہ تحریک” قائم کی جس کا سربراہ سردار محمد یوسف مقرر کیا گیا، اور یہ تحریک اب بھی فعال ہے۔

‎3 جنوری 2012 کو متحدہ قومی موومنٹ (MQM) نے قومی اسمبلی میں نئے صوبوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیمی بل پیش کیا، جس میں صوبہ ہزارہ کے چھ اضلاع شامل تھے، اور مارچ 2014 میں کے پی کے اسمبلی نے اکثریتی ووٹوں سے علیحدہ ہزارہ صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کی، تاہم دو تہائی اکثریت کی کمی کی وجہ سے یہ آئینی طور پر مکمل نہ ہو سکی۔ 16 نومبر 2014 کو تحریک صوبہ ہزارہ نے سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں سے رابطہ کرکے تحریک کو فعال کیا، اور اگست 2016 میں سردار محمد یوسف کی قیادت میں قومی سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کی گئیں اور ہزارہ صوبے کی تشکیل پر بریفنگ دی گئی۔ تحریک نے الیکٹرانک، سوشل اور پرنٹ میڈیا، جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے اپنا پیغام عام کیا۔

‎بابا حیدر زمان تحریک کے آئیکون تھے جنہوں نے اپنی زندگی تحریک کے لیے وقف کی اور عوامی شعور اجاگر کیا۔ ہزارہ صوبہ تحریک کا بنیادی مقصد ہزارہ ڈویژن کے لیے الگ صوبہ قائم کرنا ہے تاکہ یہ خطہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی طور پر ترقی کر سکے، محروم اور استحصال زدہ طبقات کے حقوق کی وکالت کرے، اور اس کی بنیاد انتظامی اور ترقیاتی مسائل پر ہے نہ کہ نسل، زبان یا مذہب پر۔ نئے صوبے کے قیام سے محروم خطوں کی پسماندگی دور ہو سکتی ہے اور یہ مطالبہ پاکستان میں مختلف محروم علاقوں کے جائز حقوق کا آئینہ دار ہے۔

‎”2010 میں نام کی تبدیلی اورتحریک صوبہ ہزارہ کا آغاز”

‎2010 میں جب 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے North-West Frontier Province (NWFP) کا نام تبدیل کر کے Khyber Pakhtunkhwa رکھا گیا، تو ہزارہ ڈویژن کے عوام نے اسے اپنی لسانی، ثقافتی اور تاریخی شناخت کی پامالی کے طور پر دیکھا، جس کے نتیجے میں 6–8 اپریل 2010 سے شدید احتجاج اور مظاہرے شروع ہوئے۔ ہزارہ کے تاجروں، وکلاء، سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے شٹر ڈاؤن ہڑتالیں، ٹائر جلانے اور واک آؤٹ کال کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، اور ان مظاہروں کو کئی دنوں تک جاری رکھا گیا، جس سے اسکول، دکانیں اور نقل و حمل مفلوج ہو گئے۔ 8 اپریل کو ایبٹ آباد میں زندگی مکمل طور پر مفلوج رہی، لیکن سب سے شدید دن 12 اپریل 2010 تھا، جب مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، احتجاجیوں نے پولیس موبائلز اور ایک ایمبولینس کو آگ لگا دی، سڑکیں بلاک کیں، اور پولیس نے آنسو گیس، لاٹھی چارج اور فائرنگ کے ذریعے مظاہروں کو منتشر کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں کم از کم سات افراد شہید اور تقریباً 200 زخمی ہوئے، جبکہ بعض ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد آٹھ یا نو تک بھی جا پہنچی۔ ان تشدد زدہ واقعات نے انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ معاشی اور سماجی نظام کو بھی شدید متاثر کیا؛ شاہراہ قراقرم اور دیگر مقامی رابطے کئی دن تک بند رہے، تجارت اور روزگار متاثر ہوئے، اور ہزارہ کے تاجروں، دکانداروں، طلبہ اور عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

مظاہروں کے دوران ہر ضلع میں کوآرڈینیٹر مقرر کیے گئے تاکہ احتجاج منظم انداز میں جاری رہے، اور احتجاجی لانگ مارچ ایبٹ آباد اور ہری پور سے شروع ہو کر اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچا، جس نے نہ صرف مقامی بلکہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں ہزارہ عوام کی تحریک کو نمایاں کر دیا۔ بعد ازاں صوبائی حکومت نے Kundi Commission کے ذریعے واقعے کی تحقیقات کروائیں، جس نے یہ تسلیم کیا کہ احتجاج ابتدا میں پرامن تھا اور تشدد حکومت، پولیس اور بعض چھپی ہوئی قوتوں کی نااہلی اور سازش کی وجہ سے ہوا، تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ ان سات شہداء کی ایف آئی آر تک آج تک درج نہیں ہو سکی، اور ہر سال 12 اپریل کو ان کی برسی منائی جاتی ہے۔ یہ مظاہرے، لانگ مارچ، شہادتیں، زخمی ہونے والے، بند شاہراہیں اور اربوں روپے کے اقتصادی نقصان اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہزارہ عوام نے اپنی شناخت، حقوق اور الگ صوبے کے قیام کے لیے مضبوط، متحد اور منظم موقف اختیار کیا، جس نے تحریک صوبہ ہزارہ کو نئی روح، عوامی عزم، سیاسی اہمیت اور تاریخی حیثیت عطا کی، اور یہ جدوجہد نہ صرف مقامی بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانی گئی۔

‎ "صوبہ ہزارہ: ایوانی جدوجہد اور آئینی طریقہ کار برائے قیام

‎نئے صوبے کا قیام نہ صرف قراردادوں یا سیاسی بیانات سے ممکن ہے بلکہ آئینِ پاکستان میں اس کے لیے ایک سخت، واضح اور مرحلہ وار طریقہ کار موجود ہے جس کی بنیاد آرٹیکل 239 پر ہے۔ آئین کے مطابق، اگر کسی ترمیم کے ذریعے کسی صوبے کی حدود بدلنی ہوں یا نیا صوبہ قائم کرنا ہو تو مرحلہ وار طریقہ کار یہ ہے:

‎صوبائی اسمبلی کی منظوری: سب سے پہلے متعلقہ صوبائی اسمبلی اس ترمیم کو منظور کرے گی اور اس کے لیے دو تہائی اکثریت لازمی ہے (آرٹیکل 239 شق 4)۔ یہ شق اس لیے اہم ہے کہ صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بغیر کوئی بل آگے نہیں بڑھ سکتا، چاہے وہ قومی سطح پر کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو۔

‎قومی اسمبلی کی منظوری: پھر یہی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش ہوگا، جہاں اسے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا ضروری ہے (آرٹیکل 239 شق 2)۔ قومی اسمبلی میں منظور ہونے کے بعد ہی بل سینیٹ کی طرف بڑھتا ہے۔

‎سینیٹ کی منظوری: اس کے بعد بل سینیٹ میں جائے گا اور وہاں بھی اسے دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا لازمی ہے (آرٹیکل 239 شق 3)۔ سینیٹ کی منظوری یہ یقینی بناتی ہے کہ ہر صوبے کے مفادات کا تحفظ ہو اور بل وفاقی توازن کے مطابق ہو۔

‎صدرِ پاکستان کی منظوری: آخر میں بل صدرِ پاکستان کے پاس بھیجا جائے گا اور ان کے دستخط کے بعد ہی نیا صوبہ قانونی حیثیت اختیار کرے گا (آرٹیکل 239 کا مجموعی عمل)۔ اس کے بغیر کوئی قانونی تبدیلی عملی شکل نہیں اختیار کرتی۔

‎یاد رہے کہ صرف قراردادیں آئینی ترمیم نہیں ہوتیں؛ یہ محض سیاسی رائے یا سفارش ہوتی ہیں، جبکہ نیا صوبہ صرف آئینی ترمیمی بل کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔

‎ تاریخی ریکارڈ اور تحریکِ صوبہ ہزارہ

‎صوبہ ہزارہ کے حوالے سے مختلف فورمز پر اب تک متعدد قراردادیں اور بل پیش کیے جا چکے ہیں، جو تحریک کی تاریخ اور جدوجہد کو واضح کرتے ہیں۔

‎2010، قومی اسمبلی: ممبر قومی اسمبلی و وزیر مملکت سردار شاہ جہاں یوسف نے پہلی بار صوبہ ہزارہ کے قیام کے لیے قومی اسمبلی میں تقریر کی اور صوبائی حکومت کے رویے کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ یہ پہلا مرحلہ تھا جس نے صوبہ ہزارہ تحریک کو قومی سطح پر منظرعام پر لایا۔

‎21 مارچ 2014، خیبرپختونخوا اسمبلی: ممبر صوبائی اسمبلی سردار ادریس نے صوبہ ہزارہ کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کروائی، جو تحریک کا پہلا قانونی اور باقاعدہ ریکارڈ تھا۔
‎4 جنوری 2022، خیبرپختونخوا اسمبلی: ممبر صوبائی اسمبلی سردار محمد یوسف نے دوبارہ قرارداد پیش کی اور اس کی توثیق ہوئی، تاکہ صوبے کے قیام کی تحریک مضبوط بنیادوں پر قائم رہے۔

‎دسمبر 2025، خیبرپختونخوا اسمبلی: رکن صوبائی اسمبلی نذیر احمد عباسی نے نئی قرارداد پیش کی جسے ایوان نے بھرپور حمایت دی۔ یہ قدم تحریک کو نئے سیاسی اور آئینی عزم کے ساتھ آگے لے گیا۔

‎پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت اور انتظامی چیلنجز

‎حالیہ برسوں، خصوصاً 2024 اور 2025 کے دوران، جنوبی پنجاب کے لیے نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ بارہا زیرِ غور آیا ہے۔ سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی نے 2025 میں آئینی ترامیم، بشمول آرٹیکل 106 اور دیگر متعلقہ دفعات، پر غور شروع کیا۔ اس بل کی حمایت کرنے والے عوامی اور سیاسی حلقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی تقریباً 40 فیصد آبادی تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور نیا صوبہ قیام اس کے انتظامی اور ترقیاتی مسائل حل کر سکتا ہے۔ اس کا واضح مظاہرہ اسکولوں اور صحت کے بنیادی یونٹس کی تعداد سے ہوتا ہے، کیونکہ پنجاب کے 50,112 اسکولوں میں سے صرف 13,446 جنوبی پنجاب میں موجود ہیں، اور صحت کی بنیادی سہولیات بھی کم ہیں۔ اسی طرح سندھ میں بھی شہری علاقوں، خصوصاً کراچی اور اس کے مضافات، کے لیے نئے صوبے یا انتظامی یونٹ کے قیام کا مطالبہ اٹھ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ شہری مسائل، لوکل گورننس کا بحران اور مرکزیت پر مبنی انتظامی کنٹرول ہے۔ اس پس منظر میں 28ویں آئینی ترمیم کی تجویز سامنے آئی، جس میں نہ صرف لوکل باڈیز کو اختیارات دینا، وسائل کی منتقلی اور انتظامی اصلاحات شامل ہیں بلکہ نئے صوبوں یا حد بندیوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

‎یہ وہی محرکات ہیں جو ہزارہ کے لیے دلیل بنتے ہیں: وسیع رقبہ، متنوع نسلی و لسانی شناخت، وسائل کا استحصالی استعمال، انتظامی کمزوری، اور ترقیاتی محرومی۔ جنوبی پنجاب کے عوام بھی صحت، تعلیم اور بنیادی سہولتوں کی کمی اور مقامی نمائندگی کے فقدان پر شاکی ہیں، جس کی مماثلت ہزارہ میں وسائل کی منصفانہ تقسیم اور انتظامی حقوق کے مطالبے سے ظاہر ہوتی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں لوکل گورننس کے بحران اور شہری مسائل نے بھی لوگوں کو نئے صوبے یا انتظامی یونٹ کے قیام پر مجبور کیا ہے۔ 28ویں آئینی ترمیم پر غور یہ واضح کرتا ہے کہ پورے ملک میں انتظامی ڈھانچے کی تنظیم نو ضروری ہے تاکہ وفاقی توازن، اختیارات کی تفویض اور مقامی خودمختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔

‎ہزارہ خطہ تاریخی، ثقافتی، جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ خطہ صدیوں سے مختلف تہذیبوں، نسلی و لسانی گروہوں اور سیاسی و مذہبی تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ ہزارہ ڈویژن کی صنعتی، زرعی، معدنی، توانائی اور سیاحتی پیداوار اسے اقتصادی طور پر خود کفیل اور ترقی یافتہ صوبہ بنانے کے لیے اہل بناتی ہے۔ نئے صوبے کے قیام سے مقامی عوام کی ترقی، وسائل کی منصفانہ تقسیم، سیاسی نمائندگی اور وفاقی توازن ممکن ہوگا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے