مدثر شاداب کا تحقیقی جوہر

حال ہی میں پروفیسر مدثر شاداب کی کتاب ”فتح جنگ کے اہلِ قلم“ شائع ہوئی ہے۔ خود مدثر شاداب کا تعلق تحصیل فتح جنگ کے گاؤں بنگو کے ایک علمی، ادبی اور مذہبی گھرانے سے ہے۔ مؤلف کے والد محترم تنویر حسین ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ گاؤں بنگو کے امامِ مسجد اور دینی مبلغ بھی ہیں۔

مؤلف نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول بنگو اور کسانہ میں اپنے والدِ گرامی کی نگرانی میں حاصل کی۔ 2001ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول قطبال سے میٹرک اور گورنمنٹ ڈگری کالج فتح جنگ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ بی اے اور ایم اے اردو کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی سے مکمل کرنے کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے سی ٹی، بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اسی یونیورسٹی سے 2014ء میں "ڈاکٹر وحید قریشی بطور شاعر” کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ایم فل اردو کی ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے عملی زندگی کا آغاز 2007ء میں محکمۂ تعلیم میں بطور سینئر ایلیمنٹری اسکول ایجوکیٹر کیا۔ بعد ازاں 2022ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بطور لیکچرار (اردو) منتخب ہوئے۔ آج کل اپنی مادرِ علمی گورنمنٹ بوائز ایسوسی ایٹ کالج فتح جنگ میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

آپ ایک عرصے سے قلم کے ساتھ وابستہ ہیں اور ادبی، تعلیمی، تدریسی اور سماجی موضوعات پر مستقل طور پر لکھتے رہتے ہیں۔

مدثر شاداب کی پہلی کتاب "مرزا غالب کے جدید خطوط” 2024ء میں منظرِ عام پر آئی، جس میں شامل خطوط موجودہ حالات کے تناظر میں مرزا غالب کے اسلوب کی پیروڈی پر مشتمل ہیں۔ ان کی دوسری کتاب "فتح جنگ کے اہلِ قلم” تحقیقی نوعیت کی ہے جسے فکشن ہاؤس لاہور نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب 344 صفحات پر مشتمل ہے اور چھ ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔

باب اوّل میں فتح جنگ شہر کا تعارف اور مختصر تاریخ، باب دوم میں تحصیل فتح جنگ کے 128 اہلِ قلم کا تذکرہ، باب سوم میں ادبی تنظیموں اور اداروں کی تاریخ، جبکہ باب چہارم میں فتح جنگ کے ادبی رسائل و اخبارات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پانچویں باب میں علاقے اور اس کی عمارات پر لکھے گئے ادب کو شامل کیا گیا ہے اور چھٹے باب میں تحصیل کے ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی فہرست درج ہے۔

پروفیسر مدثر شاداب نے یہ کتاب مرتب کرکے ایک طرف اپنے علاقے کے اہلِ قلم کے کام کو منظرِ عام پر لایا ہے، اور دوسری طرف تذکرہ نگاری کی روایت کو بھی زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تذکرہ نگاری کی صنف عربی و فارسی سے ہوتی ہوئی اردو تک پہنچی۔ اردو میں تذکرہ نگاری کا آغاز میردردؔ کے دور میں ہوا، تاہم اٹھارہویں صدی کے وسط تک اردو شعرا کے تذکرے فارسی میں لکھے جاتے رہے۔ اس کی مثال میر تقی میر کا تذکرہ "نکات الشعراء” ہے جو 1752ء میں فارسی زبان میں مرتب ہوا۔

1707ء میں عالمگیر اورنگزیب کی وفات کے بعد فارسی کی سرکاری سرپرستی ختم ہوئی تو اردو زبان کے لیے دروازے کھلے اور اٹھارہویں صدی کے اوائل میں اردو کو فروغ ملنا شروع ہوا۔ محمد حسین آزاد کی تصنیف "آبِ حیات” اردو میں پہلا ایسا تذکرہ ہے جو محض شعرا کا ذکر نہیں بلکہ ادبی، لسانی اور سوانحی تنقید کا بہترین نمونہ بھی ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد تذکرہ نگاری کو باقاعدہ صنف کی حیثیت سے خاطر خواہ فروغ نہ مل سکا، تاہم ملکی و علاقائی سطح پر بعض افراد نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ مختلف شہروں کے مشاہیر کے تذکرے، جیسے لاہور کا دبستان شاعری، سرگودھا کا دبستان شاعری، راولپنڈی کی شعری روایت اور شخصیاتِ اٹک—اسی روایت کی مثالیں ہیں۔ وفیات نگاری بھی تذکرہ نگاری کی ایک قسم ہے جس میں پروفیسر محمد اسلم، ڈاکٹر منیر سلیچ، ڈاکٹر عقیل عباس جعفری اور خالد مصطفی کا کام نمایاں ہے۔

پروفیسر مدثر شاداب نے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تحصیل فتح جنگ کے اہلِ قلم پر تحقیقی کام کا بیڑہ اٹھایا۔ اس تذکرے میں زندہ اور وفات یافتہ دونوں طرح کے اہلِ قلم کے کام کا احاطہ کیا گیا ہے۔ چونکہ تقدیم و تاخیر ہمیشہ حسّاس معاملہ رہا ہے لہٰذا مصنف نے زمانی ترتیب اختیار کی ہے۔ اس تذکرے کا پہلا نام میاں محمد ابراہیم (پیدائش 1775ء، گاؤں مہلو) اور آخری نام احسن صارم (پیدائش 2001ء) کا ہے۔ یوں یہ تذکرہ اڑھائی صدیوں پر محیط ہے۔

تحصیل فتح جنگ میں نہ جانے کتنے اہلِ قلم ہوں گے جنہوں نے اپنے لفظوں سے اس علاقے کو روشن کیا، مگر مدثر شاداب نے ان میں سے 128 اہلِ قلم کی تلاش اور تحقیق کی۔ تحقیق کا عمل ہمیشہ دشوار ہوتا ہے اور جب سینکڑوں افراد کے کوائف درکار ہوں تو یہ مشکل کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ مصنف نے ایک ایک شخص کے گھر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ کسی نے دروازہ تک نہ کھولا، مگر کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے دل اور دروازے بیک وقت کھول دیے۔ کچھ متعلقین نے اپنے ممدوح کے بارے میں مبالغہ کیا اور کچھ نے اتنی کسرِ نفسی سے کام لیا کہ محقق مخمصے میں پڑ گیا۔

اللہ تعالیٰ نے پروفیسر مدثر شاداب کو تحقیقی اوصاف سے نوازا ہے۔ نوجوان ہونے کے باوجود ان میں جلد بازی یا عجلت کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ انہوں نے استقامت، ذمہ داری اور غیر جانب داری کے ساتھ مواد اکٹھا کیا۔ تمام موصولہ مواد کو پرکھ کر صرف مستند معلومات شامل کیں۔ جہاں قیاس کی ضرورت تھی وہاں دلیل کی روشنی میں اسے جانچا گیا۔

مصنف نے بنیادی مآخذ، سرکاری و نجی دستاویزات، زبانی روایات اور زندہ قلم کاروں سے براہِ راست ملاقاتوں کے ذریعے مواد جمع کیا۔ کتاب کے آغاز میں فتح جنگ کی مختصر تاریخ اس لئے شامل کی گئی کہ قاری اہلِ قلم کی تخلیقات کو علاقے کی تہذیب و معاشرت کے تناظر میں سمجھ سکے۔

کتاب کے آخر میں تحصیل فتح جنگ سے تعلق رکھنے والے ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی مکمل فہرست—نام، ولدیت، سکونت، یونیورسٹی، سال اور مقالے کے موضوع سمیت—درج ہے۔

پروفیسر مدثر شاداب کا یہ تحقیقی کام لائقِ صد تحسین ہے۔ اللہ کریم ان کے قلم کو دنیا کے لیے خیر کا وسیلہ بنائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے