زیلونی بازار سیمی

زیلونی یعنی سبز رنگ، بازار سے مراد مارکیٹ یعنی زیلونی بازار، اگلی صبح خریداری کیلئے رانا قمر اور رضوان کے ہمراہ نکلے، ہوسٹل سے باہر نکل کر چوک کراس کیا اور دائیں مُڑے، تھوڑا آگے جا کر بائیں ہاتھ ایک قدیم قازق شاعر آبائی کے نام سے منسوب بِبلی یاتیکا آبایا یعنی آبائی لائبریری نظر آئی، وہاں سے زیبرا کراسنگ عبور کرکے بائیں سڑک پر مڑے، یہ اُولتسا انترناشیونلنایا یعنی انٹرنیشنل ایونیو ہے، دائیں طرف پلوشد میدان نظر آیا، ہر طرف رنگ برنگے پھول ہی پھول کھلے ہوئے، میدان کے پار وزارت کی عمارتیں، آگے چلتے رہے، سبزہ زار کے اختتام پر دائیں طرف پلوشد تھیٹر کی بلڈنگ تھی، سابقہ سوویت یونین نے جتنی بھی عمارتیں تعمیر کیں، اپنی بناوٹ اور تعمیر میں ایک شاہکار ہیں کہ برسوں گذرنے کے بعد بھی قابل استعمال، دیواریں تعمیر کرتے وقت بیرونی دونوں دیواروں کے درمیان ایک یا دو فٹ کا خلا چھوڑا جاتا ہے، جسے مٹی، لکڑی کے بُرادے اور چونے کے مکسچر سے بھرا جاتا ہے، نتیجہ باہر جتنی بھی سردی یا گرمی ہو، عمارت کے اندر اس کی شدت بہت کم محسوس ہوتی ہے.

تھوڑا آگے جا کر دائیں ہاتھ ایک زرمبادلہ تبدیل کرنے والی شاپ نظرآئی، رانا قمر نے بتایا "یہاں ایسی بہت سی دکانیں ملیں گی لیکن اس دکان کا ریٹ اچھا ہے.” دکان کے اندر سجاوٹ عمدہ تھی، ایک بورڈ پر کرنسی کی شرح تبادلہ ہاتھ کی لکھائی سے درج تھی، قمر نے بتایا "یہاں ہر روز کرنسی کا ریٹ بدل جاتا ہے، جتنی ضرورت ہو فقط اتنے ڈالرز تبدیل کرو.” حسبِ ضرورت ڈالرز تبدیل کروائے، وہاں سے ٹیکسی لی اور زیلونی بازار پہنچ گئے.
سیمی کا زیلونی بازار کم و بیش ایک مربع ایکڑ پر محیط ہے، سنترلنی آوتو وگزال یعنی سنٹرل بس اسٹیشن یہیں واقع ہے، وہاں کرنسی تبدیل والی دکانیں بھی نظر آئیں، ہر دکان کا ریٹ ایک دوسرے سے تقریباً مختلف، اطراف میں رشین ڈیزل کی ایک مخصوص بُو پھیلی تھی، جو پہلی مرتبہ نتھنوں سے ٹکرائی تو عجیب سا لگا، سر چکرایا اور چُٹکی سے ناک بند کرلی، رانا قمر بولا "آہستہ آہستہ اس مخصوص بُو کے عادی ہو جاؤ گے.”

اونچی وسیع عمارتوں میں زیادہ تر الیکٹرانکس اور سامان میک اپ، باہر ہر دکان یا کیوسک ترتیب سے نظر آیا، ہر چیز کا ریٹ گتے کے بورڈ پر لکھا، ایک دام واحد کلام والی صورت حال، ہر چیز کا ایک سرکاری ریٹ مقرر، دکاندار اپنی مرضی سے کمی بیشی نہیں کر سکتا، اگر خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تو بھاری جرمانے کے ساتھ سزا بھی، سرکاری ہرکارے بھی عام لباس میں چکر لگاتے رہتے، سوئی سے لیکر گھوڑے کا گوشت تک دستیاب، ہر چیز کا شعبہ علیحدہ ہے.

گوشت والے حصے کا رخ کیا، دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے، گوشت کی مہک نے استقبال کیا، رش بہت زیادہ، پہلی مرتبہ سالم گھوڑا ذبح شُدہ لٹکا دیکھا، سیلز گرل سے گھوڑے کی طرف اشارہ کرکے پوچھا "سکُولکا ستو اِت؟” یعنی اس کی کیا قیمت ہے؟، وہ بولی "ادِن تیسچ کیلو.” مجھے سمجھ نہ آئی تو اس نے جیب میں رکھا کیلکولیٹر نکالا اور ایک ہزار کا ہندسہ پنچ کرکے دکھایا، گھوڑے کا گوشت سب سے مہنگا تھا، میں ایک بار پھر سے رٹے ہوئے جملے دہرائے "یا نووی ستودنت، یا نی زنایُو روسکی.” (میں نیا سٹوڈنٹ ہوں، رشین نہیں جانتا.) اس نے بازو لہرا کر مٹھی بند کی، ڈولا دکھایا اور اشارے سے بتایا کہ اسے کھاؤ گے تو طاقت ملے گی، بیل، بکرا اور تازہ مرغی کا گوشت بھی دستیاب تھا، پہلے گھوم پھر کر میلہ دیکھنا پھر کچھ خریدنا تھا، رانا قمر کو کچھ شاپنگ کرنی تھی، طے پایا کہ جب فری ہو جاؤ تو آوتو وگزال کے باہر پہنچ جاؤ.

مصالحوں والے حصے کی طرف رخ کیا، پاکستانی دیسی سٹائل کی طرح مصالحہ جات از ہرقسم، پسے اور بغیر پسے، سرخ مرچ انگلی پر لگا کر چکھ کر دیکھی، بہت تیز تھی، اب زبان یار ترکی و من ترکی نمی دانم، چند ایک ٹوٹے پھوٹے کلمات یاد کرلئے تھے، زیادہ تر دکانوں پر سامان دیکھتے، ریٹ پوچھتے اور پھر دکاندار کیلکولیٹر پر پنچ کرکے بتاتا، ابا جی نے نصیحت کی تھی کہ اگر کچھ خریدنا ہو تو اسے ڈالرز یا پاکستانی روپے میں ضرب تقسیم مت کرنا، جو دل چاہے کھاؤ.

سبزی والے حصے کی طرف گئے، کارتوشکا یعنی آلو وافـر مقدار اور بکثرت کہ زمین پر پڑے تھے، معلوم ہوا کہ یہ پاکستان سے درآمد کئے گئے ہیں، کپڑوں والے سیکشن کا رخ کیا، ہر طرح کے کپڑے لنڈا بازار کی طرح لٹکے نظر آئے لیکن سٹینڈرڈ کا بہت فرق تھا، اسی طرح گھوم پھر کر سامان پورا کیا، لنچ کا وقت ہوگیا، کوئلوں پر بھنی شاشلک کی خوشبو آئی، طے پایا کہ تھکے ہوئے ہوسٹل جا کر کھانا کہاں پکائیں گے تو یہیں سے کچھ کھا لیتے ہیں، شاشلک والے سٹال ایک ترتیب سے لگے تھے، کوئی ہڑبونگ نہیں، نہ شور شرابہ، کوئی ایک دوسرے کے گاہک کو اپنی طرف نہیں کھینچ رہا، صبح ڈالر تبدیل کروانے سے جو فائدہ ہوا تھا اس رقم کا ہم نے ساشلک کھایا، کھانے سے سیر ہو کر آوتو وگزال پہنچے، رانا قمر اور رضوان ہمارے منتظر تھے، سامان زیادہ ہوگیا تھا، کرنسی تبدیل والی دکان کے بورڈ پر ڈالر کا جو ریٹ صبح کے وقت تھا وہ اب دس تنگے کے فرق سے بڑھ چکا تھا، رانا قمر کی بتائی بات بعد میں بھی کئی مرتبہ سچ ثابت ہوئی، ایک ہی دن میں چار چار مرتبہ ریٹ تبدیل ہوتا دیکھا.

ہمیں وہاں کھڑے دیکھ کر قریبی سٹال والی بڑھیا نے ہم کو آواز دی، رضوان نے اس سے بات کی، اس کے بیٹے کے پاس کار موجود تھی، ہوسٹل ڈراپ کرنے کا کرایہ پانچ سو تنگے طے پایا، اس نے اندر کی طرف منہ کرکے آواز لگائی "رستم” ایک لڑکا باہر آیا، بڑھیا نے اسے ہدایات دیں، لڑکے نے سامان گاڑی میں رکھنے میں ہماری مدد کی، ہوسٹل پہنچ کر دو پھیروں میں باری باری سامان اوپر کمروں میں لیکر گئے۔

سامان خرید لائے تھے لیکن پکانے کیلئے چولہا بھول گئے، معلوم ہوا کہ یہاں ہوسٹل میں گیس والے چولہے کی اجازت نہیں، طلباء دروازہ بند کرکے الیکٹرک ہیٹر پر کھانا پکاتے ہیں لیکن یہ ہیٹر بھی ممنوع ہے، اگر کسی کمرے سے ہیٹر برآمد ہو جائے تو بھاری جرمانہ عائد ہوگا، ہر فلور پر ایک کمرہ بطور کچن مخصوص تھا لیکن وہ ابھی تیار نہیں ہوا، لہذا سب ایسے ہی گذارہ کر رہے تھے، اس دن رانا قمر سے چولہا ادھار لیا، ملک یوسف کھانا پکانے کا ماہر تھا، میں نے اس کی مدد کی، شام کے کھانے کیلئے رانا قمر و رضوان کو بھی دعوت دیدی.

سال 2023 ماہ نومبر میں تاشقند جانے کا اتفاق ہوا، وہاں کے مشہور چار سُو بازار گیا، یوٹیوبر حضرات نے اس کی ریٹنگ بہت بلند کر رکھی ہے، جب گھوم پھر کر دیکھا تو محسوس ہوا کہ فقط ایک گول گنبد نما عمارت میں روزمرہ استعمالکے مصالحہ جات والی اشیاء ملتی ہیں، اس گنبد کے باہر اندر کے واکنگ ٹریک ٹوٹے پھوٹے، چلتے ہوئے دو تین مرتبہ پاؤں رپٹا، فقط گھوڑا گوشت پلاؤ والا حصہ کچھ قابل ذکر ہے، غربت بہت زیادہ، زیادہ تر گاہک سستا بازار سمجھ کر خریداری کیلئے دور دراز گاؤں والے نظر آئے، ہر لحاظ سے سیمی کا زیلونی بازار بہت بڑا اور منظم لگا تھا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے