بول ٹی وی کا قصہ

18 مئی کو امریکا کے ایک دوسرے درجے کے اخبار نیو یارک تاےمز میں معروف پاکستانی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کے خلاف ایک منصوبہ بند مضمون چھپا کہ یہ کمپنی جعلی تعلیمی اسناد جاری کرتی ہے اور بدلے میں بھاری رقم وصول کرتی ہے ۔

ڈیکلن واش نامی صحافی نے بڑی مہارت سے کہانیاں جوڑ جوڑ کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ دنیا کا وہ خوفناک فراڈ ہے جس سے پوری دنیا کی معشیت کو خطرہ ہے اور تعلیمی معیار کویہ کمپنی کسی بم کی طرح اڑا رہی ہے۔

بس اس مضمون کا چھپنا تھا کہ حکومت پاکستان کے کچھ خاص لوگ یوں اچھل پڑے جیسے کوئی سونے کی چڑیا ان کو ہاتھ لگ گئی ہو۔ ایف آئی اے متحرک ہوگئی۔ روز ایک نئی سٹوری اخبارات میں چھپتی اور تمام ٹی وی چینلز پر فوری اور بریکنگ نیوز کی بہار آگئی۔ یوں لگا جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ وہ واحد واقعہ ہے جس سے پوری دنیا کی تباہی کا خطرہ ہے اور اس خطرے کی خبر عوام کو دینا لازمی ٹھہر گئی۔

خیر پاکستان کے حکمران طبقات کی اس طرح کی چابک دستیوں سے تو تاریخ بھری پڑی ہے ۔ بے چارہ شعیب شیخ اپنی جذباتی پاکستانیت کا شکار یہ کیسے سمجھ سکتا کہ اس ملک میں تو کسی وکیل کے بیڈ روم سے بھی کوئی میزائل برآمد ہو سکتا ہے۔ یہ تو صرف ایک مضمون تھا جو ایک غیر ملکی اخبار سے برآمد کروایا گیا تھا اور یوں بھی اس طرح کی کہانیاں اور مخصوص تحقیقاتی رپورٹوں سے تو یہ ملک ویسے بھی خود کفیل ہے۔

اس ملک میں جس کو مارنا ہو تو پہلے اس کے خلاف خود ہی کہانیاں تراشی جاتی ہیں۔ ایک فرضی دشمن تخلیق کیا جاتا ہے۔ پھر اپنی ہی تخلیق کی ہوئی کہانی پر تحقیقات کی جاتی ہیں جس کو بنیاد بنا کر حملہ کر دیا جاتا ہے اور یہ سب "ملک” کی نیک نامی کے لیئے کیا جاتا ہے۔

امیر لوگ اپنے کارندوں کے ذریعے حکومتی اداروں کے ساتھ ہمیشہ ساز باز میں رہتے ہیں اپنے ذاتی مخالفوں یا کاروباری رقابتوں کے خوف کا شکار یہ لوگ ہر وہ کام کر گذرتے ہیں جو اٹھائی گیر بھی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

مئی 2015 کا مضمون Axact کے خلاف ایک FIR بن گیا۔ ابھی اس مضمون کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ FIA نے چھاپے مارنے شروع کر دیے۔ یوں لگا جیسے یہ سپاہ تیار صرف اس مضمون کے آنے کا انتظار کر رہی تھی سو Axactکے مالک شعیب شیخ اورو قاص عتیق سمیت سیکڑوں ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کو ایک ہائی پروفائل کیس قرار دے دیا گیا۔ بس کیاتھا پاکستان کی صحافت کے سورما ٗجو اپنی بہادریوں کے قصے بیان کر کر کے تھکتے نہیں تھے، یوں اڑے جیسے تھے ہی نہیں۔

اس پورے حملے کی سربراہی شاہد حیات نام کے ایک سینئر پولیس آفیسر کے پاس ہے اس مذکورہ پولیس آفیسر نے پچھلے دس ماہ میں کتنی تحقیق کی ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن چھاپے مارکر گرفتارکرنے والے برگیڈ کے اس سربراہ کے متعلق کسی نے سوچا ہے کہ20 ستمبر 1996 کو کلفٹن کے پاس بھی ایک برگیڈ گولیاں چلا رہا تھا ۔کیا اسی معرکے کے کسی غازی کو یہ ذمہ داری دیتے ہوئے کیا توقع رکھی گئی ہوگی ۔

خیر معلومات کی اس کمپنی پر شب خون مارنے کے نتیجے میں اس کمپنی کے متعلقہ تمام دفاتر بند کر دیئے گئے ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا۔ بینک اکاوٗنٹ سیل کر دیئے گئے۔

بول ٹیلیوزن نیٹ ورک جس نے ابھی اڑان نہیں بھری تھی کو بھی آن ایئر ہونے سے روک دیا گیا بول ٹی وی کی انتظامیہ نے شاید یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ بڑے منجھے ہوئے صحافیوں پر مشتمل ٹیم کے ساتھ میدان میں اتریں گے ۔ اس خوش گمانی اور خوش فہمی کی بنیاد پہ کہ جن مایہ ناز صحافیوں کو وہ اپنے ادارے میں بھاری بھاری تنخواہ پر رکھ رہے ہیں کہ وہ اس ا دارے کو چلانے، مضبوط کرنے اور آگے لیجانے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں گے لیکن یہ سب ایک داستان کا حصہ بن گیا ۔

بول کے آنے سے پہلے کہانی گھڑ چرب زبانوں نے اس کو ISI کا چینل قرار دے رکھا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ISI کو کوئی ایک چینل خاص طور پر بنانے کی کیا ضرورت تھی جبکہ یہ سارے چینل اسی کے ہیں ۔ خفیہ دنیا کے داوٗد ابراہیم کے چہرے پربھی بول کا سٹیکر لگایا گیا ۔

بہرحال جب سماج میں علم کے نام پر جہالت اصول و نظریے کے نام پر موقع پرستی اور لفظوں کی حرمت سکوں میں ڈھل جائے توایک بول کیا انسانی روح بھی نیلام ہوجاتی ہے۔

ضیاٗ آمریت کے سامنے لکھنے والے نزیر لغاری اپنے کچھ سینئر دوستوں کے ساتھ بول کے دفتر کے باہر نظر آتے ہیں جبکہ بول ورکرز ایکشن کمیٹی کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ مل کر اپنی جدو جہد کو آگے بڑھا رہی ہے ۔

بول کے ملازمین کو پچھلے7 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، دفاتر بند ہیں اکاوٗنٹ سیل ہیں اور صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیمیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ حکومت ٹریڈ یونینز کو دھونس ، دھاندلی اور پیسے کے دباؤ کے زریعے یرغمال بنا رہی ہے ۔

کسی دانشور نے کہا کہ صحافت 200 امیر لوگوں کے پیسے کا کھیل ہے اور پاکستان امیر لوگوں کے اس کھیل کی بڑی خوبصورت مثال ہے۔

لفظ نیا سماج تشکیل کرتے ہیں نئے عنوان دیتے ہیں لفظ کی پہریداری میں لفظوں کے محافظ سولی پہ جھول جاتے ہیں لیکن پاکستان کے لفظوں کے یہ مجاور صرف حاکموں کے رطب السان ہیں۔ لفظوں کی حرمت کی پامالی کے گر کوئی ان سے سیکھے۔ روٹی کے نام پر احساسات کے قاتلوں کے ان ہم سفروں نے بول کے ورکرز کے ساتھ وہی کیا جو ان کے آقا چاہتے تھے۔ چولھے ٹھنڈے ہوگے،8000 خاندان غربت کی دلدل میں دھنسے چلے جا رہے ہیں ، لیکن کون سنے گا یہ سب کچھ ، کون فیصلہ کرے گا وہ جن کی اپنی فیکٹریوں میں تنخواہ کا مطالبہ کرنے والوں کو آگ کی بھٹیوں میں زندہ جھونک دیا گیا یا وہ جنہوں نے حق مانگنے والے کو کبھی واپس نہیں جانے دیا۔

بول کے مقدمے کا کیا فیصلہ ہوگا مجھے نہیں معلوم ، ایک ایسا مقدمہ کہ دس مہینے میں جس کے 6 جج تبدیل کر دیئے گئے ہوں 16 وکیل بدل دیئے گئے ہوں، ان سات مہینوں میں کوئی ایک متاثرہ شخص سامنے نہ آیا ہو، وفاقی تحقیقاتی ادارے نے چالان تک پیش نہ کیا ہو ، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے 19 سال سے قائم یہ کمپنی جو ٹیکس بھی دیتی رہی ، جس کا آڈٹ بھی ہوتا رہا ، جس کے پاس بول سمیت کاروبار کرنے کے سارے لائسنس بھی ہیں ۔ بینک دولت پاکستان سے clearance سرٹیفکیٹ بھی ہو وہ لمحہ بھرمیں فراڈ اور دھوکا دہی والی کمپنی کیسے بن گئی . اس کا جواب شاید آنے والا وقت دے. تب تک ہم برے وقت میں ساتھ نہ دینے والوں کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتے ہم بول کے لیئے کام کرنے والے تمام ورکرز سمیت Axact کے تمام ملازمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

آخرمیں میں شعیب شیخ صاحب اور بول ورکرز ایکشن کمیٹی کو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے نہیں پتہ کہ میڈیا کے دوسرے سیٹھوں کے ساتھ مل کر نواز شریف حکومت آپ کے ساتھ کیا کرے گی لیکن جس طرح آپ لڑ رہے ہیں لڑتے رہیے ، کہیں لڑکھڑا نہ جانا کیونکہ رات جتنی بھی کالی اور لمبی ہو اس کی سحر نے ہونا ہی ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے