” قوم کے نام پر تہمت "

یہ امتیاز صرف پاکستان کو ہی حاصل ہے کہ یہاں ہر تبدیلی راتوں رات ہی آجاتی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ راتوں رات واپس بھی چلی جاتی ہے ، وقتی تبدیلی اور پائیدار تبدیلی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے بلکل ایسے ہی جیسے کسی اناڑی کے پاؤں کے نیچے اتفاق سے بٹیر آجائے تو وہ شکاری نہیں بن جاتا ، پاکستان میں ہر تبدیلی کسی اناڑی کے پاؤں کے نیچے بٹیر کی طرح ہی آئی ہے اور پاؤں ہٹاتے ہی پھر سے اڑ بھی جاتی ہے ۔

ایک ہوتا ہے پیسے والا ، اور ایک ہوتا ہے خاندانی امیر ، ان دونوں میں بھی بالکل اتنا ہی فرق ہے جتنا فرق پاکستان اور جرمنی میں ہوسکتا ہے ۔ جرمنی دوسری جنگ عظیم کے بعد مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکا تھا لیکن کس قدر جلد انہوں نے واپسی ترقی اختیار کی یہ ساری دنیا کے سامنے ہے ، جاپان تو دو عدد ایٹم بم ہضم کرچکا ہے اسکے بعد کیسے ساری دنیا پر جاپان کی مصنوعات نے راج کیا یہ بھی سب کے سامنے ہے ، اگر پوری دینداری ، انصاف اور مساوات کے ساتھ آپ ایک ہجوم کی تربیت کر کے اسے قوم کا درجہ دلوا چکے ہیں تو پھر دو ایٹم بم ہی کیا دو سو ایٹم بم بھی اسے دوبارہ اپنے قدموں پہ کھڑا ہونے سے نہیں روک سکتے اور جس قوم کو اپنے قدموں پہ چلنا تو دور گھسٹ گھسٹ کر رینگنا بھی ٹھیک سے نہ آیا ہو اسکی بربادی کے لئے تو کسی ایٹم بم کی ضروت ہی نہیں ، اسکی بربادی کے لئیے مذہبی منافرت اور قوم پرستی کا بم ہی کافی ہے ۔

پاکستان میں پیسے والا بننا کچھ زیادہ مسئلہ نہیں اسکے لئے کسی ہائر ایجوکیشن کی ضرورت نہیں ہے ، اسکے لئے آپکا مہذب ہونا ، ایماندار ہونا ، پاکباز ہونا ، یہ سب غیر ضروری کوالیفیکیشنز ہیں ، آپ عیار ہیں ، دھوکے باز ہیں ، جھوٹے ہیں ، وعدہ خلاف ہیں ، چاپلوس ہیں ، بے ضمیر ہیں ، انسانیت کے قاتل ہیں ، راشی ہیں ، سودی ہیں ، بس اتنی تعلیمی اسناد کافی ہیں پھر آپکو پیسے والا بننے سے خود آپ بھی نہیں روک پائیں گے ۔

لیکن یہ سب کرنے سے آپ صرف پیسے والے بنیں گے ، خاندانی نہیں ، تعلیم اور پیسہ کم از کام چار نسلوں کے بعد برتنا آتا ہے ، اگر آج آپ نے دھوکہ دہی سے پیسہ بنا بھی لیا ہے تو پیسے کو برتنے کا سلیقہ کہاں سے لائیں گے ؟ صرف اچھی گاڑی خرید لینا ہی کوئی کمال نہیں ہوتا ، گاڑی میں بیٹھنے کا سلیقہ بھی نسلوں میں آتا ہے ، بولنا ، سننا ، دیکھنا ، اٹھنا ، بیٹھنا ، چلنا ، رکنا ، کھانا ، پینا ، یہاں تک کے ڈریسنگ کرنا بھی نسلوں میں آتا ہے ، بیٹھنے کی ہی مثال لے لیجئیے ، ہم نے بیٹھنے کے لئے بھی آج تک کوئی ایسی چیز نہیں بنائی جس پر ہم لیٹ نہ سکیں ، ہم کرسی پر بیٹھتے نہیں لیٹتے ہیں ، یہ وہ سب چیزیں ہیں جو دنیا کے کسی بازار میں نہیں ملتیں دنیا کے کسی ادارے میں نہیں ملتیں کہ آپ کرپشن کر کے انہیں حاصل کرلیں ، یہ گنے کی مشین صرف پاکستان میں ہی لگی ہوئی ہے کہ ادھر سے گنا ڈالا اور ادھر سے جوس نکال لیا یعنی ادھر قومی اسمبلی کا ٹکٹ خریدا اور ادھر آپ لکھوں پتی سے کروڑ پتی بن گئے ، ایسی قیمے کی مشینیں صرف پاکستان میں ہی لگی ہوئی ہیں کہ ادھر سے قوم کے گوشت کی بوٹیاں ڈالیں اور ادھر سے گوشت کا جوش یعنی قیمہ نکال لیا ۔

ہم پاکستانیوں کو قوم کہنا حقیقی معنوں میں اقوام کے ساتھ زیادتی ہے اور ہم پر تہمت لگانے کے مترادف ہے ، عرض کیا تھا کہ ابھی تو ہمیں ٹھیک سے سڑک پر چلنا نہیں آیا ، گاڑیاں فٹ پاتھ پر چل رہی ہوتی ہیں ، ہر شخص جلدی میں ہے ، اکثر آپکو سڑکوں پر نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک شخص آڑھی ترچھی کٹنگ کرتا ہوا اپنی جان کا رسک لیتا ہوا سگنل توڑتا ہوا تیز رفتاری سے سب کو بائی پاس کرتا ہوا نکل جاتا ہے ، تھوڑی ہی دیر بعد جب آپ اگلے موڑ پر پہنچتے ہیں تو وہ ٹھیلے پہ کھڑا گول گپے کھاتا نظر آرہا ہوتا ہے ، کام ٹکے کا نہیں ہے لیکن ہر شخص جلدی میں ہے ۔

دکان کے ماتھے پر لکھا ہوتا ہے ان اللہ مع الصابرین ، اور سب سے زیادہ بے صبرا وہی دکان والا ہوتا ہے اسکا بس نہیں چل رہا ہوتا کے ملاوٹ زدہ چیزیں مرچوں کی طرح لوگوں کی آنکھوں میں جھونک کر انکی جیب سے پیسے نکال لے ، یہ اعزاز بھی صرف پاکستانیوں کو حاصل ہے کہ اپنے کام کی جگہ یعنی دکان وغیرہ پر کلمہ لکھیں گے ، قرانی آیات لکھیں گے ، احادیث لکھیں گے ، اسلاف کے اقوال لکھیں گے اور پھر اس لکھے ہوئے کے منافی عمل کو سب سے پہلے خود کریں گے ، نام دیکھو ذرا ، نورانی کباب ہاؤس ، کباب کیسے نورانی ہوتے ہیں یہ میں تو آج تک نہیں سمجھ پایا ، باہر سڑک پہ بٹھا کے آنے جانے والے لوگوں کا رستہ روک کر ، دھول مٹی اور دھویں کے ساتھ وہ کیا کھلا رہا ہے آپکو ، نورانی کباب ، اور وہ بھی ہاؤس میں نہیں ، باہر فٹ پاتھ پر ، جہاں پیدل چلنے والوں کا حق ہے ۔

بریانی کی دکان کا نام رکھا ہے عاصم اللہ والا ، پچھلے دنوں جانا ہوا تو دیکھا کہ دکان کا پورا اسٹاف مالکان سے تنگ آکر کام چھوڑ کر چلا گیا ہے کہ چودہ گھنٹے کام لینے کے بعد محض ڈھائی سو روپے پگار بلکے بیگار ملا کرتی تھی ، نام کیا ہے ؟ عاصم اللہ والا ، ہال میں پیر صاحب کی تصاویر بھی بڑی عقیدت کے ساتھ لگائی ہوئی ہیں ۔

پوری مارکیٹ کا نام ہی رکھ دیا اللہ والا مارکیٹ ، سارے شیطانی کام وہیں ہوتے ہیں ، حیدری بازار کی مثال لے لیں ، حیدر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا لقب ہے اس سے بنا ہے حیدری ، اور پھر حیدری بازار ، کونسی دو نمبر چیز نہیں ملتی وہاں سب کو پتہ ہے ، ارے بھائی چوری چکاری ، کم تولنا ، نقص چھپا کر بیچنا ، بے انتہا منافع لینا ، جعلی نام سے چیزیں بیچنا ، یہ سب ہمارا لائف اسٹائل ہے ۔ یہ ہی ہماری تہذیب ہے یہ ہی ہماری تربیت ہے ، یہ ہی ہمارا اعتقاد ہے ، یہ ہی ہمارا یقین ہے ۔

بخوشی کرے جاؤ ، یہ سب کرو لیکن اللہ کا واسطہ کے ان سب کاموں کے بیچ اسلام کو نہ گھسیٹو اور یہ سب کام کرتے ہوئے خود کو قوم نہ کہو ۔۔۔۔۔۔۔ قومیں ایسی نہیں ہوا کرتیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے