بلوچستان میں علیحدگی کی سازش

اِس حقیقت کو تو تمام ہی بیرونی طاقتیں تسلیم کرتی ہیں کہ جنرل مشرف کی ناقابل یقین حمایت کے بغیر امریکہ نیٹو اتحاد ، افغانستان میں ملا عمر کی طالبان حکومت کو اتنی آسانی سے فتح نہیں کر سکتا تھا لیکن افغانستان پر قبضہ کرنے کے باوجود امریکہ اور نیٹو اتحادی افغان مزاحمت پر کلی طور پر قابو پانے میں کسی حد تک ناکام رہے جس کے منفی اثرات دہشت گردی کی شکل میں پاکستان پر بھی ثبت ہوئے۔ چنانچہ پاکستانی ادارے اور عوام جنہوں نے دہشت گردی کی اِس جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کی قربانی دی ہے، یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کی اِس غیر معمولی حمایت کے باوجود مغرب نے پاکستانی وفاﺅں کا کیا صلہ دیا ہے ؟ صلہ تو درکنار امریکہ نیٹو اتحاد اور اُس کے حمایتی اسرائیل اور بھارت تو پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اِس کی ایک جھلک پاکستان سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کےلئے پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان حالیہ بات چیت کے پس منظر میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔

جونہی میاں نواز شریف حکومت نے طالبان سے بات چیت کے ذریعے امن کو ایک اور موقع دینے کی کوشش کی تو نہ صرف بات چیت کے اِس پروسس کو ناکام بنانے کےلئے بیرونی ایجنسیوں کے تابع چند طالبان گروپوں کی دہشت گرد کاروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ نام نہاد بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) اور جنداللہ تنظیم جو تاحال بلوچستان اور ایران کے بلوچ علاقوں تک محدود تھی نے بھی اپنی سرگرمیوں کا دائرہ سندھ ، پنجاب اور خیبر پی کے تک بڑھا دیا ہے جس کی تائید بی ایل اے کی جانب سے سندھ اور پنجاب میں پاکستان ریلوے ٹرینوں کو دھماکہ خیز حملوں اور رحیم یار خان میں اہم گیس پائپ لائینز کو دھماکہ سے اُڑانے اور پشاور میں جنداللہ کی دہشت گرد کارروائیوں سے بخوبی ہو جاتی ہے ۔ اِسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ طالبان حکومت رابطے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان (کانگریس) کے چند بااثر ارکان بھی پاکستان کو امریکہ کا دشمن قرار دینے اور بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کے تانے بانے بننے کےلئے متحرک ہو گئے ہیں ۔

حیرانی کی بات ہے کہ ایک جانب تو بی ایل اے پاکستان کے مختلف علاقوں میں اہم انسٹالیشنز کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کرنے میں مصروف ہے تو دوسری جانب ایک بین الاقوامی منظم سازش کے تحت امریکی کانگریس کے چند بااثر اراکین دانا ٹائرون روہرابچر، لوئی گوہمرٹ اور اِسٹیو کنگ جنہیں مبینہ طور پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی حمایت حاصل ہے، نے پاکستان پر سیاسی دباﺅ بڑھانے کےلئے حال ہی میں برطانیہ میں مقیم بلوچ جلاوطن رہنماﺅں خان آف قلات میر سلیمان خان داﺅد اور ہربیار مری سے مبینہ طور پر خفیہ ملاقات کی جو سوئٹزرلینڈ میں مقیم بی ایل اے کے رہنما براہمداغ بگتی اور مہران مری سے رابطے میں ہیں ۔

مبینہ طور پر اِس خفیہ ملاقات کے بعد امریکی کانگریس کے رکن دانا روہرابچر جو امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی سب کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں نے بلوچ جلاوطن لیڈروں کو یقین دلایا کہ وہ بلوچوں کے حق خودارادیت کےلئے آواز بلند کرتے رہیں گے کیونکہ پاکستان امریکہ کا دوست نہیں ہے بلکہ دشمن ہے ۔ اِس سے قبل ٹائرون روہرا بچر امریکی ایوان نمائندگان میں بلوچوں کے حق خوداختیاری کے حوالے ایک قرارداد پیش کر کے بلوچ جلاوطن لیڈروں میں شہرت حاصل کر چکے ہیں جس میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے بلوچوں کے حق خوداردیت کو تسلیم کرے۔ اِسی طرح 24 فروری 2013ءمیں رائل سوسائیٹی لندن میں بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ٹائرون روہرابچر نے بلوچستان کی آزادی کےلئے حکومت پاکستان سے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا تھا ۔ اِس کانفرنس میں خان آف قلات کے علاوہ دیگر جلاوطن بلوچ لیڈروں نے بھی شرکت کی تھی ۔

درج بالا تناظر میں اگر ماضی کے دریچوں سے جھانک کر دیکھا جائے تو ماضی میں افغان جہاد کے ذریعے امریکہ کو سرد جنگ کی لعنت سے نجات دلانے کے باوجود بھارت کے مقابلے میں پاکستان کےساتھ امریکہ کا رویہ ناقابل فہم ہی رہا ہے ۔ نائین الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ کی غیر معمولی مدد تو پاکستان نے کی لیکن امریکہ نے خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے کےلئے سیکیورٹی، دفاعی اور ایٹمی معاہدے بھارت سے کئے۔ امریکہ نے خطے میں بیشتر بنیاد پرست مسلم تنظیموں کو تو ایک خفیہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کے سبب موثر شہادتیں نہ ہونے کے باوجود دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے میں دیر نہیں لگائی لیکن بیرونی خفیہ سپورٹ سے پاکستان میں تخریب کاری اور اہم سول و دفاعی انفراسٹرکچر پر دہشت گرد حملوں میں ملوث کسی بھی تنظیم بالخصوص بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بجائے خطے میں مخصوص مفادات کے پیش نظر بھارت اور اسرائیل کے ذریعے چند بلوچ قبیلوں کو تخریب کاری کےلئے منظم کر کے بلوچوں کے حق خوداردیت کو ہوا دینے سے بھی گریز نہیں کیا ہے ۔

حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی سپورٹ کے باوجود امریکہ نے نائین الیون کے بعد خطے میں پاکستان پر سیاسی دباﺅ بڑھانے کی ناقابل فہم خفیہ حکمت عملی پر مبنی پالیسی کو جاری رکھا ہے اور نہ صرف پاکستانی سرحدوں پر 10 ماہ تک بھارتی فوج لگائے رکھنے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی حوصلہ افزائی کی بلکہ بعد ازاں بھارت کےساتھ سیکیورٹی معاہدے کو اَپ گریڈ کر کے 2005ءمیں اِسے امریکہ بھارت دفاعی اور ایٹمی معاہدوں میں تبدیل کر دیا ۔

پاکستانی مفادات کے خلاف اِسی خفیہ حکمت عملی کو آگے بڑھانے کےلئے اومان میں امریکی ، اسرائیلی و بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے گریٹر بلوچستان تحریک کی آڑ میں ابتدائی طور پر ایران کے ایٹمی پروگرام کو کیپ کرنے کےلئے بلوچستان میں مری قبیلے کی سربراہی میں 2005ءمیں عسکریت پسند بلوچ لیڈر بالاچ مری کی قیادت میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA) قائم کی گئی تھی لیکن ایران کےساتھ ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کے معاہدے کے بعد اب اِن تنظیموں کو کلی طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے چنانچہ2006ءمیں ایک عسکری آپریشن کے دوران مری بگتی علاقے میں پہاڑی سرنگ کے دھماکے میں نواب اکبر بگتی کی ہلاکت کے بعد بی ایل اے کی سربراہی بالآخر نواب اکبر بگتی کے پوتے براہمداخ بگتی نے سنبھال لی ہے ۔

اِس سے قبل بلوچ تحریک کو مہمیز دینے کےلئے دسمبر 2005ءمیں بھارتی دفتر خارجہ نے تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کے حوالے سے بلوچستان کو گاندھی اور نہرو کا ورثہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا ارتکاب کیا تھا اور پاکستانی دفتر خارجہ کے احتجاج کے باوجود یہ بیان واپس نہیں لیا تھا۔

پاکستان کے داخلی معاملات میں بھارتی مداخلت کے جواز پر ایک نجی بھارتی ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے 4 جنوری 2006ءکو سابق بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جناب برجس مشرا نے کہا تھا کہ ” بھارتی حکومتی ترجمان کو بلوچستان کی صورتحال پر بیان بازی کا کوئی حق نہیں تھا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان حالات کو معمول پر لانے کی کوششوں کے حوالے سے یہ ایک منفی عمل ہے ۔ کیا ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ایک آزاد ملک کے خلاف بلوچوں کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں، اگر ہم ایسا کر بھی رہے ہیں تو کیا ہمیں یہ باتیں پبلک میں کرنی چاہئیں کیونکہ اِیسا کرنے کو ایک احمقانہ سوچ سے ہی تعبیر کیا جائیگا ” ۔

بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان کے بعد بھارت نے 2005ءمیں سابق بھارتی انٹیلی جنس چیف بی رامن کی قیادت میں بی ایل اے کی تحریک کو دنیا بھر میں حق خوارادیت کی تحریک کے طور پر پیش کرنے کےلئے ایک تھنک ٹینک بھی قائم کیا تھا ۔ اِسی طرح اسرائیل کے دارلحکومت یروشلم میں جلا وطن آزاد بلوچستان حکومت کا دفتر قائم کیا گیا جبکہ نارتھ امریکہ اور یورپ میں بلوچ جلاوطن لیڈروں نے پاکستانی سفارتی دفاتر کے سامنے مظاہرے کئے جن میں امریکی حق خودارادیت کے ادارے کے ڈائریکٹر والٹر لینڈری نے بھی شرکت کی اور بلوچوں کو حق کوداردیت دینے کا مطالبہ کیا ۔ اندریں حالات ، طالبان حکومت مذاکرات میں حائل دشواریوں کا احاطہ کرنے کےساتھ وزیراعظم نواز شریف کو بلوچستان میں علیحدگی کی بین الاقوامی سازش پر بھی گہری نظر رکھنے اور علیحدگی پسندعناصر کے خلاف مربوط آپریشن لانچ کرنے کی ضرورت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے