بک فیسٹول یا فوڈ فیسٹول

اکثر ايسا ہوتا ہے کہ بيچ منجدھار پھنس جاتا ہوں ، اور پھر دل اور دماغ ميں ايک گھمسان کا رن پڑتا ہے، ليکن اس جاري جنگ ميں جيت ہميشہ دل کي ہي ہوتي ہے،
اس بار ہوا کچھ يوں کہ ملتان کے انتہائي قريبي دوست سليم اظہر کي طرف سے شادي خانہ آبادي کي تقريب ميں شرکت کي دعوت 20 فروري بروز ہفتہ اور21 فروري بروز اتوار کے ليے ملي ہوئي تھي ، سليم سے تعلق ايسا کہ جو کم انسانوں سے ہوتا ہے ، فرشتہ صفت ، انسانيت کا علمبردار،وجہيہ شکل ڈاکٹرسليم ہر دلعزيز شخصيت ہے ، دوسري جانب اسلام آباد ميں انہي تاريخوں ميں پاکستان ميں مادري زبانوں کا ادبي ميلہ سجنے والا تھا ، جس کا عنوان "ہماري زبانيں ہماري پہچان” تھا۔

لوک ورثہ اسلام آباد ميں ہونے والے اس ادبي ميلے کو مرکزي تعاون يو ايس ايڈ کا حاصل تھا ، جب کہ منتظمين ميں انڈس کلچرل فورم اور ادارہ استحکام شرکتي ترقي شامل تھے
سليم کي شادي پر جانا ضروري تھا ، ليکن ادبي ميلہ لگا ہو ، تو کہاں جايا جا سکتا ہے ، پس ايک بار پھر شش و پنج ميں مبتلا ہو گيا۔

ايک قريبي علم دوست عزيز اکثر فرماتے ہيں کہ شيرازي "اگر تمہاري اپني شادي والے دن شہر ميں کوئي ادبي فيسٹول ہوا ، تو مجھے يقين ہے ، کہ تم اس دن بھي وہاں ضرور جاؤ گے”۔ کيا کروں کہ کتاب ميلہ ہو تو پھر خود پر کنٹرول نہيں رہتا ، اپنے شہر ميں ادبي تقريبات کيسے چھوڑ سکتا ہوں۔

پس فيصلہ ايک بار پھر دل کا ہي مانا ، برادرم سليم کو فون کيا ، تقريب ميں شرکت سے معذرت کي اور ساتھ ہي يہ دعوت بھي دے ڈالي کہ شادي کے بعد مري ميں ايک ہفتے کا ہني مون ٹرپ ميرے ذمہ ، اس کے انتظامات اور اخراجات کي فکر نہ کيجئے گا ، اور بھابھي سے بھي معذرت کر لي۔

‘پاکستان کي مادري زبانوں کا ادبي ميلہ’اس ميں مجموعي طور پر 25 سيشنز رکھے گئے تھے، جب کہ اختتام ميں ايک گرينڈ ميوزيکل شو کا انعقاد ہو نا تھا ۔

ہفتے والے دن بعد از دوپہر لوک ورثہ پہنچا ،تو خوشگوار احساس ہوا کيونکہ پارکنگ ميں کم ماليت کي گاڑي اور موٹر سائيکل سے لے کر مہنگي ترين گاڑيوں اور ہيوي بائيکس کي بڑي تعداد موجود تھي ۔

لوک ورثہ کے وسيع احاطے ميں داخل ہوا ، تو ہر جانب کھانوں کي خوشبوئيں پھيلي ہوئي تھيں ، معلوم ہوا ہر علاقے کے اپنے مشہور علاقائي کھانوں کے سٹال لگے ہوئے ہيں ، سجي ، دہي بڑے ، گول گپے ، کباب اور برياني کے سٹالوں پر خوب رش تھا۔

ہم يہ ديکھتے ہوئے آگے پڑھے اور کانفرنس ہال کا رخ کيا ، کہ جہاں پرعالمي ادب کے مادري زبانوں ميں تراجم کا سيشن جاري تھا ، جس کے ميزباني کے فرائض اجمل کمال ، کمال انداز ميں سرانجام دے رہے تھے ، مقررين ميں سندھي زبان کے ممتاز بخاري، اردو کے ارشد وحيد ، بلوچي کے ڈاکٹر عبد الصبور ، سرائيکي کے سعيد اختر سيال ، پشتو کے ڈاکٹر خالق يار ، پنجابي کي ثروت محي الدين اور ہندکو کے وقار علي شاہ شامل تھے
ہال ميں جب داخل ہوا تو کثير تعداد ميں پڑھي خالي کرسيوں نے استقبال کيا ، 2 سو سے زائد رکھي کرسيوں ميں سے صرف 20 پر حاضرين بيٹھے تھے جب کہ باقي آنے والوں کا راستہ ديکھ رہي تھيں ، جو کہ مزيدار کھانوں ميں گم تھے۔

پہلے حيران ہوا اور پھر پريشان ، ميرے خيال ميں تو اس سيشن کے دوران ہال ميں تل دھرنے کي جگہ بھي نہيں ہوني چاہيے تھي ، ليکن افسوس کہ آدھا ہال بھي پُر نہ ہو سکا ، سيشن اختتام کو پہنچا ، سعيد اختر اور ثروت محي الدين سميت تمام مقررين نے خوبصورت اور دل کو چھو جانے والي باتيں کيں ، اس دوران سب کا اس امر پر اتفاق تھا کہ عالمي ادب کا مادري زبانوں ميں ترجمہ نہ ہونے کے برابر ہے ، جس کے ہم سب قصور وار ہيں
وہاں سے نکلا تو نجيبہ عارف کي ميزباني ميں سجي پاکستان کي مادري زبانوں ميں فکشن ، ناول اور افسانے کي محفل ميں جا پہنچا ، وہاں بھي خالي کرسيوں کي ايک بڑي تعداد مقررين کا منہ چڑا رہي تھيں۔

ہفتے والے دن مجموعي طور پر 11 سيشنز ہوئے،جن ميں مادري زبانوں کا لوک ادب ، مادري زبانوں کے نثري ادب سے اقتباسات اور ناز سہتو کي ميزباني ميں مادري زبانوں ميں پرنٹ اور اليکٹرانک ميڈيا کے سيشن معلومات سے بھرپور تھے ، اور ان ميں دلچسپي اختتام تک برقرار رہي، ليکن افسوس صد افسوس کہ کسي بھي سيشن ميں شرکاء کي تعداد 50 سے زيادہ نہ بڑھ سکي۔

اختتام پر اردو ، سندھي ، پنجابي ، پشتو ، بلوچي ، کشميري ، تور والي ، گوجري ، پوٹھوہاري ، ہزارگي ، بلتي ، سرائيکي ، شرينا ، بروشکي ، وخي ، داؤدي اور ڈھاٹکي زبان کا مشاعرہ منعقد ہوا کچھ زبانوں کے دو دو اور بعض زبانوں کے تين تين شعراء نے اپني علاقائي زبانوں ميں کلام سنايا اور داد سميٹي ، يہاں پر حاضرين کي تعداد کچھ بہتر نظر آئي ۔

بوجھل دل کے ساتھ واپسي کي راہ لي ، کم تعداد ميں لوگوں کا سيشنز اٹينڈ کرنا اور ادب کي بجائے کھانے کو ترجيح دينا ايک ادب پسند شخص کے ليے نہ صرف مايوس کن تھا بلکہ تکليف دہ بھي تھا ، جب کہ اُس وقت بھي کھانوں کے سٹالوں پر بے پناہ رش موجود تھا
اتوار 21 فروري کو اس ميلے کا دوسرا دن تھا،، جلد ہي پہنچ گيا ، دن بھر مجموعي طور پر 14 سيشنز منعقد ہونا تھے ۔

ايک بار پھر لوک ورثہ ميں رش موجود تھا ، ليکن ان ہالوں سے کافي دور کہ جہاں ادبي سيشنز جاري تھے۔

دوسرے دن کے تمام سيشنز ميں سے عاشق عارباني کي ميزباني ميں لطيف پرائے ميں مزاحيہ پرفارمنس اور اقتباسات کي پيشکش (نثر، نظم) ۔ سفير اللہ کي ميزباني ميں متبادل ، ڈيجيٹل ، سوشل ميڈيا اور مادري زبانيں ۔ نورالہديٰ شاہ کي ميزباني ميں مادري زبانوں ميں ڈرامہ کے سيشنز معلومات سے بھرے ہوئے تھے ، جب کہ اس دوران مقررين نے دلچپ واقعات سے ان سيشنز کو مزيد رونق افزاء بنايا۔

کتابوں کے صرف 5 سٹال لگے ہوئے تھے اور ان پر بھي بس کارروائي کي کتابيں ہي پڑي تھيں ،ان 5 سٹالوں ميں شامل اکادمي ادبيات کے سٹال پر بھي کوئي قابل ذکر تخليق نظر نہ آئي، کتابيں ديکھنے کے دوران لڑکوں اور لڑکيوں کے ايک گروپ نے گھير ليا ، معلوم ہوا ان کا تعلق نمل يونيورسٹي اسلام آباد کے ماس کميونيکشن ڈيپارٹمنٹ سے ہے ، اور وہ 20 لفظوں کي کہانيوں کے باقاعدہ قاري ہيں ، لڑکے اور لڑکياں بار بار ايک ہي بات پوچھ رہے تھے کہ اس قدر مختصر لفظوں ميں کہاني کس طرح کہہ ليتے ہيں ، ان سے کہا جب آپ عملي صحافت ميں آئيں گے تو پھر آپ کو وقت اور لفظوں کي مزيد قدر ہو گي ، فکشن اور مختصر کہانيوں کے رجحانات پر گفتگو بھي ہوئي ، اور اس وقت بہت زيادہ حيران ہوا جب دو لڑکيوں نے مجھے ميري کئي کہانياں زباني سنا ديں ،بعد ازاں انہوں نے ميرے ساتھ ايک تصويري سيشن بھي کيا۔

قصہ مختصر لوک ورثہ اتوار کے دن تو خواتين و حضرات سے بھرا ہوا تھا ، ايسا محسوس ہو رہا تھا کہ يہاں پر کوئي پکنک پوائنٹ ہے ، جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈي کے باسي فيمليوں سميت بڑي تعداد ميں آئے ہوئے تھے،کھانے کے سٹالوں پر رش اورسنسان ادبي سيشنز کو ديکھ کر يہي کہا جا سکتا ہے کہ يہاں پر ادبي ميلہ نہيں علاقائي کھانوں کا ميلہ لگا ہوا ہے ، جس ميں لوگ مخلتف علاقوں کے علاقائي کھانوں سے لطف اندوز ہونے آئے ہيں۔

اختتام پر مادري زبانوں ميں شام موسيقي کا انتظام تھا ، جس ميں حميرا چنا ، اختر چنال ، شاہد علي خان ، آصف چشتي و ديگر نے فن کا مظاہرہ کيا۔

دو روزہ اس ادبي ميلے ميں شريک خواتين و حضرات کي اولين ترجيح وہاں پر کھانوں کے سٹالز اور سوشل ميڈيا کے ليے تصويريں بنانا تھيں۔

ادبي ميلے کے دوسرے روز کے اختتام پر واپس جاتے ہوئے بس ايک ہي سوال دماغ کے دريچے پر دستک دے رہا تھا ، کہ شايد ہمارے لوگوں کو ادبي ميلوں سے زيادہ کھانوں کے ميلے پسند ہيں ، جس ملک کي عوام ادبي ميلوں کو بھي کھانے کے ميلے ميں تبديل کر لے ، اس کا وزير اعظم اچھے کھانے اور دہي بڑے کھلانے والوں کو اعليٰ حکومتي عہدے ديدے تو اس ميں حيرت کي بات کيا
جيسي عوام ويسے حکمران

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے