ڈمی وزیر اعظم

وزارت عظمیٰ یا کسی بھی وزارت کا منصب انتہائی قابل احترام ہے مگر گزشتہ دو ماہ میں آزاد کشمیر میں ان مناصب کی توہین اس طرح کی گئی کہ جیسے کوئی معمولی بات ہو، وفاقی وزراء نے عوامی جلسوں میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کو "بکرا اور بکری ” کے القاب سے پکارا جس کا ردعمل شدید نظر آیا۔اس گالم گلوچ نے آزاد کشمیر میں شدید تناؤ کا ماحول پیدا کیا جس کے رد عمل کی وجہ سے سانحہ نکیال پیش آیا اور وفاق اور آزاد حکومت کی سیاسی جنگ نے ایک جان لے لی۔

آزاد کشمیر کو قومی میڈیا میں کوریج نہ ہونے کے برابر دی جاتی ہے۔ اس وقت چونکہ انتخابی ماحول ہے اور وفاقی وزراء کی ن لیگ کے جلسوں میں شرکت کیوجہ سے پاکستان کے قومی میڈیا نے آزاد کشمیر کو تھوڑی بہت کوریج دینا شروع کی لیکن نکیال سانحہ کے بعد پہلی مرتبہ قومی میڈیا نے جس طرح آزاد کشمیر کی سیاست اور دیگر معاملات کو زیر بحث لایا وہ غیر معمولی تھا ۔شاید اس لئے کہ اس واقعہ کے بعد آزاد کشمیر حکومت نے پہلی مرتبہ وفاقی حکومت کے خلاف یوم سیاہ منایا اور شدید رد عمل دیکھنے کو ملا۔ اس واقع کو لیکر پاکستان کے تمام چینلز پر پروگرامات ہوئے جن میں کئی خدشات ظاہر کئے گئے ۔

انہی پروگرامات میں سے ایک پروگرام میں کے دوران اینکر نے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان سے پوچھا کہ کہا جاتا ہے آزاد کشمیر کا وزیر اعظم ڈمی ہوتا ہے ؟ جس کا جواب ہاں میں تھا ۔یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے آزادکشمیر اسمبلی کے بے اختیاری اور بے بسی کو بے نقاب کر رکھ دیا۔اس پر اینکر نے ایک دوسرا سوال داغ دیا کہ کیا آپ بھی ڈمی وزیر اعظم تھے؟اس سوال پر سابق وزیر اعظم کا جواب تھا کہ وہ ڈمی نہیں تھے کیونکہ ان کی سیکرٹریز کے ساتھ اچھے تعلقات تھے ۔

ان کا یہ جواب بہت سے سوال جنم دیتا ہے مثلاً کیا آزادکشمیر کا وزیر اعظم اتنا بے اختیار ہے کہ سیکرٹریز کے آگے بے بس ہوتا ہے؟ کیا وہ اپنے اختیارات کا استعمال بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا اس کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں؟ یہ تمام سوال اس ایک جواب نے پیدا کئے ۔

ان سوالات کے جواب کیلئے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1974 میں جب آزادکشمیر کا آئین( ایکٹ 74 ) تشکیل دیا گیا تو جس طرح مرحوم حفیظ پیرزادہ نے لکھا اور اسے مظفر آباد بھیجا گیا اس وقت آزاد کشمیر کے نمائندہ نے جی حضوری میں اس آئین (ایکٹ 74) کو بغیر پڑھے اس پر دستخط کر دئے جس کا خمیازہ آج بھی آزاد کشمیر کے عوام بھگت رہے ہیں۔آئین کی تشکیل کے بعد پہلے الیکشن میں کامیابی کے بعد خان عبد الحمید(جون 1975 تا اگست 1977 ) پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور پھر سردار سکندر حیات(جون 1985تا جون 1990)، ممتاز راٹھور(جولائی 1990 تا جون 1991)،سردار عبد القیوم خان(جولائی 1991 تا جولائی 1996) ، سلطان محمود چوہدری (1996 تا 2001)،سردار سکندر حیات (2001 تا 2006)،سردار عتیق احمد (2006 تا 2009)، سردار یعقوب )جنوری2009 تا اکتوبر 2009 )،راجا فاروق حیدر (اکتوبر 2009 تا جولائی 2010) ، سردار عتیق احمد خان (جولائی 2010 تا جولائی 2011) اور چوہدری عبد المجید (جولائی 2011 تا تاحال) آئین کے مطابق وزیر اعظم بنے۔ یہ وزراء اعظم جنکا ذکر کیا ہے آزاد کشمیر کے عوام ان کے کارناموں سے بخوبی واقف ہیں ۔کسی کو آزاد کشمیر کے پانی پر پیدا ہونے والی بجلی کی رائلٹی مانگنے پر فارغ کر دیا گیا اور کسی کو اتنے ختیارات بھی نہیں ملے کہ وہ 4 سال وزیر اعظم ہوتے ہوئے اپنی تحصیل کو ضلع بنوانے کی کوشش کرتا رہا اور ضلع نہ بنوا سکا۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں جب اینکر نے سابق وزیر اعظم سے یہ پوچھا کہ کیا آپ ڈمی وزیر اعظم تھے تو یقیناًانہیں یہ بات یاد آئی ہو گی وہ 4 سال وزیر اعظم رہنے کے باوجود دھیرکوٹ کو ضلع نہ بنوا سکے اس تفصیل میں جانے کے بجائے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور چوہدری مجید وزیر اعظم منتخب ہوئے ان کی حالت بھی سابق وزراء اعظم سے مختلف نہ تھی لیکن آخری دور میں اپنی نے اختیاری کو ختم کرنے کیلئے کئی کوششیں کی جن میں فنڈز کی عدم دستیابی پر پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیکر وفاقی حکومت کو باور کروانے کی کوشش کی کہ ہم بھی اپنے حقوق کیلئے کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔خود سے "ڈمی” کا ٹیگ ہٹانے کیلئے وفاق کے خلاف یوم سیاہ منایا لیکن قانون کے مطابق اپنی سیٹ(وزارت عظمی )کو اختیار دلوانے کے عملی اقدامات نہ کر سکے کیونکہ اختیارات تو اس وقت حاصل ہونگے جب آئین ان کو اختیارات دے گا۔آئین (ایکٹ 74) میں ترمیم اور اختیارات کے حصول کے نعرے 2005 کے بعد ہر حکومت نے لگائے تا کہ اسمبلی کو اختیارات مل سکیں لیکن عملی اقدامات کسی نے بھی نہ کئے۔

موجودہ دور حکومت میں ایک کمیٹی بنی تھی جس میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں کے نمائندگان موجود تھے انہوں نے سفارشات مرتب کر کہ اسمبلی سے تو منظور کروا لیں لیکن کشمیر کونسل کو پیش نہ کر سکے کیونکہ کونسل کو اس کے اختیارات میں کمی کبھی قبول نہیں ہو گی۔آزاد کشمیر کے آئین کے مطابق تمام اختیارات کشمیر کونسل (اپر ہاؤس) کے پاس ہیں اور چئیرمین کشمیر کونسل (وزیر اعظم پاکستان)کی منظوری کے بغیر آزادکشمیر میں کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اب حکومت کیلئے بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالنا مشکل ہے لیکن ابھی ایسا وقت ہے کہ اسمبلی اپنی سفارشات کو مشترکہ اجلاس بلا کر پیش کرے اور ایکٹ 74 میں ترمیم کیلئے کونسل کی منظوری لے سکے۔کیونکہ جب تک کونسل کے اختیارات کم نہیں ہوتے ہمارا وزیر اعظم ڈمی ہے رہے گا اس پر ایک سیکرٹری ہی حاوی رہے گا۔

آزاد کشمیر کے حالیہ واقعات کے بعد آئندہ انتخابی مہم میں اختیارات کا مسئلہ بڑا موضوع ہو گا اس لئے اس مسئلے پر تقاریر کرنے کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اسمبلی کے اختیارات بحال ہو سکیں اور آئندہ پھر کوئی وزیر اعظم آزادکشمیر کو کسی براہ راست نشر ہونے والے پروگرام میں "ڈمی وزیر اعظم ” نہ کہہ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے