رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے

رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے
اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے

اور وہ چیز نہ دولت نہ مکاں ہے نہ محل
تاج مانگا ہے نہ د ستا ر وقبا مانگی ہے

نہ تو قدموں تلے فرش گہر مانگا ہے
اور نہ سر پر کلہ بال ھما مانگی ہے

نہ شریک سفر و زاد سفر مانگا ہے
نہ صداے جرس وبانگ درا مانگی ہے

نہ سکندر كی طرح فتح کا پرچم مانگا
اور نہ مانند خضر عمر بقا مانگی ہے

نہ کوئ عہدہ نہ کرسی نہ لقب مانگا ہے
نہ کسی خدمت قومی کی جزا مانگی ہے

نہ تو مہمان خصوصی کا شرف مانگا ہے
اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی ہے

میکدہ مانگا، نہ ساقی، نہ گلستاں ، نہ بہار
جام وساغر نہ مئے ہوش ربا مانگی ہے

نہ تو منظر کوئی شاداب وحسیں مانگا ہے
نہ صحت بخش کوئی آب و ہوا مانگی ہے

محفل عیش نہ سامان طرب مانگا ہے
چاندنی رات نہ گھنگھور گھٹا مانگی ہے

بانسری مانگی نہ طاؤوس نہ بربط نہ رباب
نہ کوئی مطربہ شیریں نوا مانگی ہے

چین کی نیند نہ آرام کا پہلو مانگا
بخت بیدار نہ تقدیر رسا مانگی ہے

نہ تو اشکوں کی فراوانی سے مانگی ہے نجات
اور نہ اپنے مرض دل کی شفا مانگی ہے

نہ غزل کے لئے آھنگ نیا مانگا ہے
نہ ترنم کی نئی طرز ادا مانگی ہے

سن کے حیران ہوئے جاتے ہیں ارباب چمن
آخرش! کون سی پاگل نے دعا مانگی ہے

آ ، تیرے کان میں کہدوں اے نسیم سحری!
سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے کیا مانگی ہے

وہ سراپائے ستم جس کا میں دیوانہ ہوں
اس کی زلفوں کے لئے بوئے وفامانگی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے