بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت

ایک مسیحی دوست نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ ذکر کیا کہ ایک پروگرام میں مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک مسلم شخصیت نے مجھ سے سوال کیا کہ تم مسیحی ہو اپنے ملک کب جاؤ گے؟ میں نے کہا یہی (پاکستان) ہمار ا ملک ہے، ہم نے اسی ملک میں رہنا ہے ۔ نہیں نہیں! اس ملک سے تمہارا کیا لینا دینا؟ جواب ملا۔ پھر میں نے بتایا کہ اگر آپ تحر یک پاکستان کا بغورمطالعہ کریں تو آپ کو معلو م ہو گا کہ ہمارے بے شمارمسیحی راہنماؤں نے اس وطن کو حاصل کرنے کے لیے خاطر خواہ قربانیاں دی ہیں۔ لیکن میری بات اور دلائل ان کے لیے بے معنی تھے کیونکہ ان کا اصرار یہی تھا کہ تم لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ یہ ملک چھوڑ دو۔بطور مسلم شہری میرے لئے ناقابل فہم ہے کہ اقلیتوں کے لیے اس احساس اور تاثرسےکون سی اسلامی تعلیمات کی ترجمانی ہو رہی ہے ۔ اگر اسی روش پر ہمارا معاشرہ چلتا رہا تو اقلیتوں کی مسلم سماج میں کوئی جگہ نہیں بچے گی، شاید انہیں دوسرے ممالک میں ہجرت کرنی پڑے۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ ہمار ے معاشر ے کی بنیادمختلف ثقافتوں، مذہبی،علاقائی ، سماجی روایات اور زبانوں پرقائم ہے۔ اور ہرمذہب کے پیروکار اپنی اپنی مذہبی اقدار ، روایات اور علاقائی ثقافت پر عمل کر تے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، جوکہ ایک مثبت رویہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیوں دوسروں کی مذہبی روایات اورثقافت کو دیکھ کر عدم رواداری کا مظاہرہ کرتے ہیں جومعاشر ے میں عدم برداشت اورتشددپر مبنی رویے کو فروغ دیتاہے۔

[pullquote]دین اسلام اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ میثاق مدینہ کی صورت میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے بیت المقد س کو فتح کیا تو انہوں نے اعلان کیا کہ غیرمسلموں کی تمام عبادت گاہوں اور درس گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہوگی۔اسی طرح اگر ہم آئین پاکستان کا مطالعہ کرتے ہیں تو آرٹیکل 20 میں لکھاہےکہ پاکستان کے ہر شہری کومکمل طور پر مذہبی آزادی حاصل ہے اور ہر مذہبی اور مسلکی مکاتب فکراپنے مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کی تعمیر کرسکتے ہیں۔اور آرٹیکل 36 اس بات کی وضاحت کرتاہے کہ ریاست اقلیتوں کے تمام جملہ حقوق اور مفادات کا خیال رکھے گی ، اس کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی سطح پر ان کی نمائندگی کو یقینی بنایاجائے گا۔
[/pullquote]

لیکن ہم اگراپنے سماجی رویوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتاہے کےوہ عدم برداشت ، نفرت، احساس ذمہ داری کےفقدان، شناخت اور رتبے کے کھو جانے کا خوف،عدم مساوات اور انصاف کی عدم فراہمی کی عکاسی کررہے ہیں، جو کہ اقلیتوں کے لیے احساس کمتری اور عدم تحفظ کا باعث بن رہے ہیں۔
[pullquote]ہمارے معاشرے کے ان اہم مسائل کی جڑیں ہمارے سماج میں مضبوطی پکڑ چکی ہیں ۔ اس لیے ان مسائل کے حل کے لیے مناسب، مؤثر اور دیر پا حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ ان پر مختلف مراحل میں تہہ در تہہ کام کرتے ہوئے ان پرقابو پایا جاسکے۔
[/pullquote]

اسی ضرورت کے پیش نظر پاکستان میں متعدد ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں اسلام آباد میں قائم ادارہ امن و تعلیم گزشتہ ایک دھائی سے سرگرم عمل ہے ۔ یہ ادارہ شناخت کی بنیاد پر جنم لینے والے تنازعات کوتعلیمی و تدریسی سرگرمیوں کے ذریعے حل تلاش کرنے کی دعوت دیتاہے اور خصوصی طور پر بین المذاہب اور بین المسالک مذہبی قیادت کے ساتھ تربیتی ورکشاپس کے دوران مؤثر مکالمے کے ذریعے ان اہم معاشرتی مسائل کے حل پر غوروخوض کیا جاتاہےاور ان کی استعداد کا ر میں اضافہ کیا جاتاہے، تاکہ وہ اپنی کمیونٹی میں جنم لینے والے تنازعات کے حل کے لیے ممکنہ کردار ادا کرسکیں۔

پاکستانی سماج کے اہم مسائل خاص طور پر سماجی ہم آہنگی میں خلل کا باعث بننے والے گھمبیر مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف سطح پر کوششیں درکار ہیں، جس میں تعلیمی ادارے اورمدارس کے نظام و نصاب میں مثبت اصلاحات کے ذریعےاوراساتذہ و طلبہ کے لیے بہتر سیکھنےسکھانے کا ماحول اور مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں ، پارلیمنٹ اور سنیٹ جیسے ادارےہمارے گہر ے معاشرتی مسائل کے پیش نظر مؤثرپالیسی اور لوکل ایڈمنسٹریشن کے نظام کو بہتر کر نےاور تعلیمی اصلاحات کے حوالےسےاہم پالیسی اور بجٹ کو زیر غور لا کر اصلاحات کرسکتے ہیں، اور ہمارا عدالتی نظام ہر سطح پر بروقت انصاف کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرسکتاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں معاشرے کے ہر فرد کو ذمہ دار بنانا ہوگا۔ تو پھر ہم امیدکرسکتے ہیں کہ اس کثیر الثقافتی معاشر ے میں ہم اپنے اپنے اختلافات کو قائم رکھتے ہو ئے خوشگوار زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھ لیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے