پیمرا اپنی عملداری قائم کر پائےگا؟

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ایک آزاد ادارہ ہے۔ ادارے کا قائم 01 مارچ 2002 میں عمل میں آیا۔پیمرااتھارٹی نجی الیکٹرانک میڈیا کو سہولت فراہم کرنے اور کنٹرول کرنیکی غرض سے پیمرا آرڈیننس2002 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ پاکستانی عوام کی معلومات، تعلیم اور تفریح کے معیار کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ خبر، حالات حاضرہ، مذہبی علم، فن، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں دستیاب انتخاب کی وسعت فراہم کرنا پیمرا کا مینڈیٹ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کے ناظرین ، اخبارات کے قارئین اور عوا مِ کو پیمرا کے متعلق آگاہی کم ہے اِس لیے پیمرا کا مختصر تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ پیمرا کا مختصر تعارف اور اِس کے اغراض و مقاصد کے بارے جاننا عوام الناس کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا عوام ملک کے دیگر گورنمنٹ کے اداروں اور اتھارٹیز کے بارے میں جانتے ہیں۔ پیمرا کے موجودہ چیئر مین معروف اور کہنہ مشق صحافی جناب ابصار عالم ہیں۔ شعبہ صحافت میں اُن کا اعلیٰ مقام
ہے۔

قارئین کی معلومات کے لیے اِس بات تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکٹرونک میڈیا کیلئے ایک ضابطہ اخلاق نافذ کیا ہے ۔ اِس ضابطہ اخلاق کی تیاری میں موجودہ چیئر مین ابصار عالم اور معروف صحافی جناب حامد میر صاحب کی انتھک محنت اور کاوش شامل ہے۔ اِس سے پہلے بھی پیمرا کا ایک ضابطہ اخلاق موجو د تھا جس کی ایک قانونی حیثیت بھی تھی۔ پیمرا سے لائسنس لینے والا ہر چینل اس ضابطہ اخلاق کا پابندتھا ۔ لیکن عملا یہ ضابطہ اخلاق مکمل طور پر غیر موثر ہو کر رہ گیا تھا اور پیمرا کا کردار ٹی وی پروگرامز میں بہتری کے بجائے ایک شکنجہ طور پر سامنے آیا۔ اِ س شکنجے کو مختلف حکومتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتی رہیں، یہی وجہ تھی کہ پیمرا کبھی بھی پوری طرح متحرک نہیں رہا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا نے ہمیشہ اس ضابطہ اخلاق کو یکطرفہ قرار دیا ۔ کچھ عرصے پہلے تک پیمرااپنی زمہ داریوں کے حوالے کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ جس کی بنیادی وجہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر سیاسی و سفارشی تقرریاں تھی۔ ادارے پر غیر پیشہ ورانہ افراد کا قبضہ تھا ۔ اگر ہم چند ماہ پہلے تک کا پیمرا کی کارکردگی کا جائز ہ لیں تو انتہائی مایوسی ہوگی۔ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا ایک بد مست ہاتھی کی مانند تھا۔ چینلز پر بھانت بھانت کی بولیا ں بولی جاتی تھی۔ بنا ثبوت پر کسی بھی شخص کی کردار کشی، عزت وقارپر نقصان دہ الزامات عائد کرناشیوا بن چکا تھا۔ حتٰی کہ مُلک دشمن، غیر مُلکی ایجنٹ، توہین اسلام اور غداری کے سرٹیفکٹ بھی مختلف چینلز سے جار ی ہو رہے تھے۔ نا شائستہ زبان اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال بھی معمول تھا۔ناظرین نے ٹی وی اسکرین پر مار دھاڑ کے مناظر بھی دیکھے۔آئینی احکامات کے بر خلاف جمہوری حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر اکسانا۔ افواج پاکستان کو جمہوری عمل میں مداخلت کی دعوت دینا۔ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید بہتان تراشی اور افواج پاکستان کے خلاف بہتان تراشی کو بھی صحافتی اقدار کے زمرے میں شامل کرلیا گیاتھا۔ چند ایک نجی چینلز پر یہ عمل بلا خوف و خطر اور ضابطہ اخلاق کے خلاف تواتر سے ہوتا رہا۔ مگر نہ کوئی نوٹس، نہ ہی ایکشن اور نہ ہی کوئی سزاتھی۔

مذکورہ عمل کے حوالے سے دو اہم واقعات جس کے بارے میں قارئین کی آگاہی ضروری ہے۔ جو پاکستان کی میڈیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائینگے۔ ماضی قریب میں نجی چینل کے مارننگ شو میں منقبت پیش کی گئی۔ جس کے دوران نادانستہ پر غلطی سرزد ہوئی۔ نادانستہ غلطی کو غلط پیرائے میں لیکر عوام اور ناظرین کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا گیا اورِ اہل بیت کی شان میں گستاخی قرار دے کر انجان پنے میں مرتکب لوگوں کو مُلک چھوڑ کر جانے پر مجبور کردیا گیا۔ وہ لوگ جو ہمیشہ پیشہ ورانہ دوڑ میں پیچھے رہے اُنہوں نے اِس واقع کی آڑ میں ذاتی عناد اور پیشہ ورانہ بغض کی وجہ سے با قائدہ ایک خطرناک مہم چلائی جس کی وجہ اُس چینل کے ملازمین کی جان خطرے سے دوچار ہوئی۔ دُکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے پیمرا کے چند ممبران بھی اپنی آئینی اور پیشہ ورانہ زمہ داریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اِس مہم کا حصہ بنے۔ دوسرا اہم واقع پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا تھا۔ یہ دھرنا پاکستان کے الیکشن کمیشن میں اصلاحات کے لیے تھا ، مگرایک نجی چینل اور اِس سے منسلک اینکرز، تجزیہ نگار، صحافی حضرات مخصوص ایجنڈے کے تحت اور صحافتی اقدار پامال کرتے ہوئے میدان میں کود پڑے۔ مزید تفصیلات کا تذکرہ ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ اِس کے بعد جو کچھ ہوا دُنیا نے دیکھا ۔جانبداری کا عنصر نمایاں تھا۔ یاد رہے کہ شہرت اچھے عمل سے بھی ملتی ہے اور بُرے سے بھی۔ چینلزکی ریٹنگ بھی بڑھی اور نام نہاد صحافیوں کو شہرت بھی ۔مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب وقتی پیمانے ثابت ہوئے۔ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ گزشتہ دورانیہ الیکٹرونک میڈیا کے لئے سیاہ باب تھا۔

مگر اب صورتحال قدرِ مختلف ہے اور پیمرا پوری طرح محترک ہے۔ ابصار عالم صاحب کی سربراہی میں ایک تجربہ کار ٹیم اپنے ضابطہ اخلاق کو بھرپور طریقے سے نافذالعمل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر باوجود اِس کے آج بھی غیر زمہ دارانہ اور غیر مصدقہ گفتگو آج بھی سُننے کو ملتی ہیں۔ دانستہ طور پر حساس نوعیت کے معاملا ت پر غیر پیشہ وارانہ طریقے تجزیہ اور تبصرے کیے جارہے ہیں۔ ایک نجی چینلزکے پروگرامز کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے چینل اور اُس سے منسلک اینکر، تجزیہ کار، صحافی حضرات کا بنیادی مقصد آئینی طور وجود میں آنے والی جمہوری حکومت پر تنقیدکرناہے۔ اُن حضرات کی گفتگو سے کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک بنانا ملک ہے اور یہا ں کی عوام پر کشمیر اور فلسطین کی عوام سے زیادہ ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ اِس طرح کی صحافت کی پیشہ وارانہ صحافت میں کو ئی گنجائش نہیں اور نہ ہی دُنیا میں اِس کی کوئی مثال ملتی ہے۔ پیمرا اپنی رٹ قائم کرنے کے کیے بھرپور اقدامات کر رہا ہے۔پروگرامز کے مواد کی غیر جانبداری سے مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ ضابطہ اخلاق کی عدم پاسداری کے مرتکب چینلز پر جرمانے عائد ہورہے ہیں اور مستقبل میں ضابطہ اخلاق کا پاس رکھنے کاپابند کیا جارہے۔ تجزیہ کار،اینکرز اور صحافی حضرات کو انتباہ، ایڈوائسز کے نوٹسز بھی جاری ہو رہے ہیں۔ مگر اِس کے باوجود مگر خدشات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ اِس تناظر میں چند گزارشات عرض کرنا چاہونگا۔کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے اگر نوٹسز پر اکتفا کیا گیا تو ادارے کی رِٹ قائم کرنیکا سفر آگے نہیں بڑھ سکے گا اور ساتھ ہی انتباہ ، ایڈوائز اور نوٹسز کی اہمیت بھی دِن بہ دِن کمزور ہوتی جائیگی اور ہو بھی رہی ہے۔ کیونکہ اکثر دیکھنے میں آرہا ہے کہ بعض اینکر اور تجزیہ کار پروگرام کے دوران غیرسنجیدگی اور مزاح کے طور پیمرا اور نوٹسزکے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ لہذا مزید کچھ کرنیکی ضرورت ہے۔ پیمرا کو چاہے کہ جزا اور سزا کا ایک منظم طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے جرمانے اور انتباہ کی پالیسی سے آگے نکل کر سخت ایکشن کرے۔اب وہ وقت نہیں رہا کہ آزادی صحافت پر قدغن اور آزادی صحافت پر شبِ خون جیسے نعرے بلند ہونگے۔ اِ ن معاملات کے حوالے پاکستانی عوام باشعور ہوچکی ہے۔

مزیدبرآں حال ہی میں دیکھنے میں آیا ہے کہ نیوز بلیٹن میں پسند کی شادی کے حوالے سے خبریں چلی جس میں لڑکی اور لڑکے کے گھر والوں کے درمیان دھینگا مشتی دکھائی گئی۔ لڑکی کے گھر والے لڑکے کو بُری طرح سے مارتے ہیں اور کھبی لڑکے کے گھروالے لڑکی سے بد سلوکی کرتے نظر آتے۔ اِس کے علاوہ کچھ دِن پہلے ہی ایک چینل پر لڑکی کے چھیڑچھاڑ سے متعلق انتہائی تحضیک آمیز رپورٹ بار بار نشر ہوتی رہی۔ حرکت کا مرتکب شخص کو خواتین اساتذہ اور اسکول کے طالبِ علم نے گھیرا ہوا ہے او ر اُس شخص پر سزا کے طور پر جوتیاں بر سائی جار ہی تھی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے رپورٹ میں مرتکب شخص کی چہرے کو نہیں چھپایا گیا اور تحضیک کا یہ عمل جاری رہا۔ بہت سُنا ہے بڑی اسکرین اور چھوٹی اسکرین کے بارے میں مگر آج کل نیوز چینلز پر تمشیل کاری کے پروگرامز کی بھرمار ہے۔ آپ ہی فیصلہ کریں اِس کو کونسی اسکرین کانام دیا جائے۔ تقریباً سارے ہی ٹی چینلز نے ایسے پروگرام نشر ہوررہے ہیں جس میں کرائم کوRe-enactment کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ اِن پروگرامز میں غیر اخلاقی حرکات، فحاشی اور بہودگی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ سماء ٹی وی پر 22 جولائی2015 کو نشر ہونے والا پروگرام واردات میں اخلاقی اقدار کی تمام حدود کو پامال کیاگیا۔ تمثیل کاری پر مبنی پروگرامز کا اسکرپٹ نہ صرف مروجہ سماجی، ثقافتی اور مذہبی قدروں کے منافی ہوتے ہیں بلکہ پیمرا قوانین اورسپریم کورٹ کے نافذ کردہ ضابطہ اخلاق کے بھی صریحاً خلاف ہے۔ پیمرا کو اِس جانب بھی توجہ دینا ہوگی ا ور غیر اخلاقی حرکات، فحاشی اور بہودگی پر مبنی پروگرامز کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ میری ناقص رائے میں تین نوٹسز کے بعد عملی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے موثر عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے اگر ایسا نہیں کیا تو پیمرا نے اب تک جو کیا وہ بھی بے سود ثابت ہوگا اور پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) حقیقی عملداری قائم نہیں ہوسکے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے