چلیں فیصلہ کر لیتے ہیں.!

ملک ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد سوشل میڈیا پر جو رن پڑا اس میں کان پڑی سنائی نہیں دے رہی. قطع نظر اس بات سے کہ جو ہوا وہ ٹھیک تھا یا غلط، یہ تو طے ہو ہی گیا کہ ہمارا معاشرہ بدترین اخلاقی انحطاط کا شکار ہے. پھانسی کے حمایتی ہوں یا مخالف، اکثریت کا رویہ ناقابل برداشت حد تک کرخت ہے. اس لئے "اکثریت” کو مخاطب کرنا کار عبث کے سوا کچھ نہیں. رہا سنجیدہ طبقہ تو دونوں طرف آگ ہے برابر لگی ہوئی. واقعاتی شہادتیں، عدالتی تقاضے. حکومتی فیصلے، مذہبی رویے اور پر لطف جگتیں غرض ایسا کوئی تیر نہیں جسے آزمایا نہ گیا ہو. تیر و تفنگ کی اس آزمائش میں فریقین کا جھگڑا شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کے ایک آڈیو پیغام پر آ رکا ہے. زور آزمائی اس بات پر ہو رہی ہے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے جو کہا اس سے ممتاز قادری شہید ثابت ہوتا ہے یا نہیں. ہمارے خیال میں اس ساری دھیما چوکڑی کا فیصلہ ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے کہ "کھیل کے تمام شرکاء پر حالة بين النوم واليقظه طاری ہو، میدان محشر کے مناظر انہیں دکھائے جائیں اور پھر واپس ہمارے بیچ بھیج دیا جائے” لیکن چونکہ یہ ممکن نہیں. اس لئے ہم کوشش کرتے ہیں کہ پہلے ممتاز قادری اور سلمان تاثیر کی کہانی چند نکات میں سامنے رکھی جائے، اس کے بعد مفتی تقی عثمانی صاحب کی تقریر کا لب لباب پیش کیا جائے اور پھر یہ فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑ دیا جائے کہ کون کہاں کھڑا ہے.

1. 2010 میں سلمان تاثیر نے 1992 سے آئین پاکستان کا حصّہ بننے والے "قانون حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم” کو کالا قانون کہا.

2. بعض لوگوں نے ان کی اس بات کو توہین رسالت قرار دے کر احتجاج شروع کر دیا.

3. مختلف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ انٹرویوز دیتے ہوئے سلمان تاثیر نے واضح الفاظ میں اپنا مؤقف پیش کیا کہ "وہ توہین رسالت کے قانون کے مخالف نہیں ہیں، بلکہ اس کے غلط استعمال کے خلاف ہیں” اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ "وہ چاہتے ہیں کہ یہ قانون باقی رہے،
لیکن اس میں کچھ اصلاحات کر دی جائیں جیسے اس قانون کے تحت درج کی جانے والی ایف آئی آر عام تھانیدار ہینڈل نہ کرے بلکہ اس کے لئے ڈسٹرکٹ لیول کا افسر مقرر کیا جائے، اور اگر تفتیش سے یہ ثابت ہو کہ ایف آئی آر جھوٹی ہے تو مقدمہ کرنے والے کو وہی سزا دی جائے جو مجرم کو دی جاتی ہے”

4. احتجاج کرنے والوں نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے ان کی وضاحت کو درخور اعتناء نہ سمجھا. جبکہ سلمان تاثیر اس بیچ اپنا مؤقف مضبوط بنانے کے لئے مختلف فورمز پر اس کی تشہیر کرتے رہے. یاد رہے انہوں نے دوبارہ یا سہہ بارہ اس قانون کو "کالا قانون” وغیرہ کچھ نہیں کہا.

5. احتجاجی ریلیوں اور لہو گرماتی تقریروں سے متاثر ہو کر ممتاز قادری نے انہیں "گستاخ رسول” سمجھا، اور شریعت خداوندی میں گستاخ رسول کے لئے جو حد مقرر ہے وہی سلمان تاثیر پر جاری کرنے کی ٹھان لی. (اس حوالے سے جن لوگوں کے ساتھ ممتاز قادری کی مشاورت ہوئی ان کے نام اور تفصیلات ان کے اقبالی بیان کا حصّہ ہیں)

6. 4 جنوری 2011 کو ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کی جان لے لی. (بندہ کے سامنے اس وقت واقعہ کی مکمل تفصیلات نہیں تھیں، اور وہ یہی سمجھتا تھا کہ ایک عاشق رسول نے گستاخ رسول کو قتل کیا ہے، اس لئے اس نے مٹھائی بھی تقسیم کی)

کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے. خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو آج ممتاز قادری زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں. لیکن قریب 5 سال 2 ماہ بعد 29 فروری کی صبح ممتاز قادری کو اڈیالہ جیل میں پھانسی کیا ہوئی ان "نعرے ماروں” کی تو جیسے چاندی ہو گئی. سب سے زیادہ حیرانگی مجھے اس بات پر ہوئی کہ جو لوگ آج شور شرابہ ڈال رہے ہیں وہ گزشتہ پانچ سال کہاں تھے.؟ انہوں نے ممتاز قادری کو رہا کرانے کے لئے کیا کردار ادا کیا.؟ انہوں نے ممتاز قادری کیس کی پیروی کب کب کی.؟ ان میں سے کتنے لوگ ممتاز قادری کے اہل خانہ کے پاس ان کی خیروعافیت پوچھنے گئے.؟ کوئی ایسا شخص جو سلمان تاثیر کے بچوں سے اس سلسلے میں ملا ہو کہ آپ دیت لے کر ممتاز قادری کو معاف کر دیں.؟

خیر جانے دیں.!! کیونکہ سوال اٹھانا "جدت پسندی” اور "مذہب بیزاری” جو ٹھہرا…

7. پھانسی کے بعد یہ بحث چل پڑی کہ ممتاز قادری کا اقدام شرعی نقطۂ نظر سے درست تھا یا غلط، اور انہیں دی جانے والی پھانسی کی حیثیت کیا ہے.

8. مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس بابت فرمایا کہ

1. گستاخ رسول کی سزا قتل ہے.

2. گستاخ رسول کو سزا حکومت وقت دے گی.

3. اگر کوئی انسان مذہبی جذبات کی رو میں بہہ کر کسی واجب القتل انسان کا خون کر دے تو اسے بدلے میں سزا تو ملے گی لیکن وہ سزا پھانسی نہیں ہو سکتی (قصاص کو پھانسی سے تعبیر کیا گیا ہے)

4. سلمان تاثیر اور ممتاز قادری والے معاملے میں انہوں نے فرمایا کہ کالا قانون کہنا صرف گستاخی ثابت نہیں کرتا، بلکہ اس کے دیگر احتمالات بھی موجود ہیں. انہوں نے فرمایا کہ مجھے تمام تفصیلات معلوم نہیں ہیں. (یعنی وہ نہیں جانتے تھے کہ سلمان تاثیر نے کالا قانون والے لفظوں کی خود وضاحت کر کے یہ بتا دیا تھا کہ میرا مطلب اس قانون کے غلط استعمال سے تھا اور یہ کہنا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے ایک فضول بات ہے)

مفتی تقی عثمانی صاحب کی گفتگو بے غبار ہے. جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سلمان تاثیر کی طرف سے گستاخی رسول ثابت ہو تب بھی انہیں قتل کرنے والا عام فرد قانون کا مجرم ہے، کیونکہ یہ کام عام افراد کا نہیں بلکہ حکومت وقت کا ہے. ہاں مگر اسے دو سہولتیں مل جائیں گی. ایک یہ امید کہ اسے الله کی بارگاہ سے نیک نیتی کی وجہ سے ثواب ملے گا اور دوسری سہولت یہ کہ اسے بدلے میں عمر قید تو دی جا سکتی ہے لیکن پھانسی نہیں.

اب سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا واقعی سلمان تاثیر نے رسول خدا کی شان اقدس میں گستاخی تھی، اگر کی تھی تو آپ نے انہیں حکومت وقت اور عدالت کے ذریعے سزا دلوانے کا کیا اہتمام کیا تھا.؟ ممتاز قادری کے جنازے میں شرکت کی سیلفیاں لگانے والوں سے کوئی پوچھے کہ آپ نے ان کی کتنی پیشیوں پرعدالت جانے کا کشٹ اٹھایا تھا.؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ ممتاز قادری کی قبر پر شہید کا کتبہ لگانے سے پہلے سلمان تاثیر کو گستاخ رسول مقبول ثابت کیا جائے.؟

جب نعروں سے فرصت ملے تو ضرور سوچئے گا اور اگر کسی نتیجے تک پہنچ جائیں تو سوال بھی اٹھائیے گا.. لیکن خیر جانے دیں.. سوال اٹھانا "جدت پسندی” اور "دین بیزاری” جو ٹھہرا..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے