اصل پاکستان

درخت کے نیچے کرسی لگا کر لوگوں کی حجامتیں بناتا نائی! سردی گرمی میں ساری رات کھولتے تیل کے کڑاھے میں پاپڑ تل کر گلی گلی بیچتا محنت کش! ریلوے سٹیشن پر لوگوں کا سامان ڈھوتا مزدور! لوگوں کے گھروں میں اُن کے جوٹھے برتن دھوتی مائی! کُوڑے کے ڈھیر سے گلی سڑی سبزیاں چُن کر کھاتا فاقہ کش! ڈنڈا اُٹھائے اُمراء کی گلیوں میں کتے کی طرح پہرہ دیتا چوکیدار! ڈِگریاں ہاتھ میں پکڑے سالوں سے نوکری کی تلاش میں خوار نوجوان! نسل در نسل لوگوں کی قبریں کھودتاگورکن! بھٹھوں پر اینٹیں بناتاہوااسیر، پورا خاندان! بلکتے خاندان کو سہارا دینے کے لئے اپنا جسم بیچتی مجبور عورت! اور ایسے ہی بے شمار لوگ جو جان لیوا محنت کر کے بھی ایک مخصوص حد سے زیادہ کبھی نہیں کما پاتے۔ جنہیں ایک وقت سوکھی روٹی مِل جائے تو دوسرے وقت کا پتا نہیں ہوتا۔ اِن کے گھروں میں آج تک کبھی کسی نے جھانک کر نہیں دیکھا کہ یہ کون لوگ ہیں جن کے لئے زندگی ایک مسلسل عذاب اور امتحان ہے۔ جنہوں نے پوری روٹی کبھی نہیں دیکھی۔ جن کے نصیب میں نیا کپڑا اور جوتا کبھی نہیں رہا۔ کتنی ہی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن اَن پر کسی کی نظر نہیں پڑی۔  یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ نہیں ہیں ۔

یہ پاکستان ہے ۔ اصل پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پاکستان کا وہ کثیر طبقہ ہے جسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں جمہوریت ہی یا آمریت۔ کون کس کو معزول کر رہا ہے اور کون لانگ مارچ کر رہا ہے۔ وزیر کِس بَلا کا نام ہے اور سفیرکیا شے ہوتی ہے ۔ کون سی بس لال رنگ کی ہے اور کون سی گرین یا اورنج، اِن کی بلا سے کشمیر آزاد ہو یا نہ ہو۔ اں کی جوتی سے کہ کون سی پارٹی بر سر اقتدار ہے اور کون سی اپوزیشن میں ہے۔ اِنہیں تو اس کا ہوش بھی نہیں کہ کون سا سیاستدان قتل ہوگیا اور کون سا پھانسی چڑھ گیا۔ اِن کو کیا لگے کہ کوئی ملک ڈرون حملے کرے یاحکومت کے کشکول میں ڈالر ڈالے۔ ان کا مسئلہ نہیں ہے کہ کس نے کتنے غیر ملکی دورے کئے اور میٹنگز میں کیا طے پایا۔

اِن کا مسئلہ تو یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے کی مزدوری کر کے جو چند روپے دِھاڑ لگی ہے اُس میں ایک روٹی اور سالن آئے گا یا نہیں۔ بچوں کے منہ میں سوکھی روٹی کا نوالہ ڈال پائے گا یا فاقہ ہی کرنا پڑے گا۔ پاوٗں تو ننگے رہیں گے ہی پر سر ڈھانپا جائے گا یا نہیں۔ یہ لوگ صبح جاگ کر مزدوری ملنے کی فکر میں ، مزدوری مل جانے پر شام کی روٹی کی فکر میں اور شام کی روٹی مل جانے پر اگلے دن کی مزدوری کی فکر میں رات کو سوجاتے ہیں۔  اکثریت اس ملک میں انہی لوگوں کی ہے ۔

تف ہے کہ ہمیں، ہمارے حکمرانوں کو، ہمارے امرا کو ہماری این جی اوز اور ویلفیئر ٹرسٹوں کو ، ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو، ہماری الٹرا ماڈرن فیشن ایبل سول سوسائٹی کو آج تک یہ لوگ دکھائی نہیں دئیے ۔اِن کے مجبور ، بیکس اور فاقہ زدہ شب و روز کا کوئی پُرسان حال نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے