تخیـل کی حیرت انگیز قوت کیا کچھ کر سکتی ہے؟

ونسٹن چرچل کے الفاظ میں ’’ تم خود اپنی دنیا تخلیق کر سکتے ہو۔ تمہاری قوت متخیّلہ جس قدر مضبوط ہو گی تمہاری دنیا اسی قدر خوش رنگ ہوگی اور جب تم خواب دیکھنا چھوڑ دو گے تو تمہاری دنیا اپنا وجود کھو دے گی۔‘‘تخیل کا مطلب ہے ایسی تصویر یا منظر ذہن میں تخلیق کرنا جو دیگر حواس خمسہ کی مدد سے مکمل طور پرسمجھ میں آنے والا نہ ہو۔ہر انسان کے اندر یہ صلاحیت کسی نہ کسی حد تک موجود ہوتی ہے ۔ اس قوت کے ذریعے انسان اپنے دماغ میں ایک نئی اور انوکھی دنیا آباد رکھنے پر قادر رہتا ہے اور کسی بھی درپیش صورت حال کو کسی نئی جہت سے سمجھنے اور پرکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اعلیٰ سطح کے تخلیقی کاموں کے پیچھے اس قوت کا موثر استعمال کارفرما ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس قوت کا بے مصرف استعمال آدمی کو دن میں خواب دیکھنے والا بھی بنا دیتا ہے جس کا نتیجہ بے عملی کی صورت میں سامنے آتا ہے لیکن ہم ان سطور میں اس قوت کے مفید پہلوؤں پر بات کریں گے۔

نوجوانوں میں ہمیشہ کچھ انوکھا کرنے کی امنگ بیدار رہتی ہے۔ وہ عمر کے اس مرحلے میں اپنی کامیابیوں کے پیمانے ازخود طے کرتے ہیں اور پھر اس کے بارے میں غور وفکر شروع کر دیتے ہیں۔اس عمل کے دوران ان کا تخیلاتی نظام مناسب تربیت کا متقاضی ہوتا ہے ۔ اگر وہ شعوری طور پر اپنی اس صلاحیت کو بروئے کار لائیں تو ان کے بہت سے خواب حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔مایوسی اور دکھ کی صورت حال میں وہ اس قوت سے کام لے کر مثبت سوچنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ وہ اس قوت کے بہتر استعمال کے ذریعے حوادث کی رو میں بے ہنگم بہتے چلے جانے کی بجائے خود واقعات تخلیق کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح ان کی اپنی زندگی کے معمولات پر کافی حد تک گرفت قائم ہو جاتی ہے۔

کسی خاص تصویر یا صورت حال کو دماغ میں تصور کرنا اوراس عمل کو دہراتے رہنا ہمیں اس چیز یا صورت حال کے نئے پہلوؤں سے آشنا کر دیتا ہے ۔یہ عمل اپنے ساتھ بے شمار اچھوتے مواقع بھی لے کر آتا ہے۔آج کسی بھی نوجوان کو روک کر پوچھا جائے کہ اس کی زندگی کی بڑی خواہش کیا ہے ؟ تو اس کا جواب ہو گا کہ میں زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہوں ۔ یہ تفصیل ظاہر ہے ہر شخص کے اعتبار سے مختلف ہو گی کہ وہ اپنے تئیں کامیابی کی کیا تعریف کرتا ہے لیکن اس سب میں تخیل کی قوت کا بہت دخل ہے۔

اس بات کومثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ بالفرض ایک اچھے موٹر سائیکل سوار بننا چاہتے ہیں ۔ آپ کے پاس فی الوقت موٹر سائیکل نہیں ہے لیکن تخیل کی قوت کو کام میں لاکر آپ کافی حد تک اس مہارت سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ آپ سکون کے لمحات میں آنکھیں بند کیجیے اور تصور کیجیے کہ آپ موٹر سائیکل پر سوار ہیں۔ اب سوچئے کہ موٹر سائیکل کس طرح چل رہی ہے۔ کس قسم کا رستہ سامنے آرہا ہے۔ موڑ کہاں پر ہے۔ گاڑیاں آپ کے پاس سے گزر رہی ہیں اور آپ کیسے ان سے بچتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اس سڑک کے نشیب وفراز کے بارے سوچئے جس سے آمد ورفت آپ کا معمول ہے۔ ہنگامی صورت حال کا تصور کیجیے اور یہ سوچئے کہ آپ اس کے ساتھ کس طرح نمٹیں گے۔ اس پورے عمل کو بار بار دہرانے کے بعد جب کچھ عرصے بعد آپ موٹر سائیکل پر سوار ہوں گے تو کافی حد تک اسے چلانے کی مہارت اور اعتماد آپ کو حاصل ہو چکا ہو گا۔بس تکنیکی اور کچھ عملی مشقوں کی ضرورت باقی ہو گی۔ اسی مثال کو آپ زندگی کے دوسرے مقاصد کی برآری کے حوالے سے بھی منطبق کر سکتے ہیں۔

ہم یہاں جیری گیلیز سے مدد لیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’آپ جو بننا چاہتے ہیں اسے لازماً تصور کیجیے نہ کہ وہ جو لوگ آپ کو بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ بہت سے لوگ کسی ادارے یا کمپنی میں مخصوص عہدے پر پہنچنے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔اس کے لیے جہاں ضروری تیاری اہمیت رکھتی ہے وہیں قوت متخیلہ سے کام لینا بھی ضروری ہے۔ آپ اس دفتر کے ماحول اور ملنے ملانے والوں کے بارے میں سوچئے۔ اپنے لباس کا تصور کیجیے اور منصب سے جڑی ذمہ داریوں اور چیلنجز کو اپنے دماغ میں گھمائیے ۔ اس طرح آپ اپنے مقصد پر توجہ مرتکز رکھنے میں کامیاب رہیں گے اور تخلیقی انداز میں اس کو پانے کی جدو جہد جاری رکھیں گے اور ایک دن اپنے خواب کو پانے کے قابل ہو جائیں گے۔

جوزف جوبرٹ نے تخیل کی قوت کو روح کی آنکھ کہا ہے۔اس کا مثبت استعمال آپ کے دماغ کی سوچنے ، سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت کو مزید نکھار دیتا ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ ایسے بچے جو ڈرائنگ یا پینٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کی تخلیقی صلاحیت دیگر بچوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈرائنگ یا پینٹنگ کے دوران کسی تصویر یا منظر کی باریکیوں کے بارے میں غور وفکر کرتے ہیں۔ وہ اگر کسی عمر رسیدہ شخص کا چہرہ بنائیں گے تو اس کی زیریں پلکوں کے قریب کی جھریوں کے بارے ہیں سوچیں گے ، وہ ان تمام تاثرات کو پینٹ کرنے کی کوشش کریں گے جو اس تصویر کو ایک مکمل تأثرسے ہمکنار کر دے گی۔ برش یا پنسل چلاتے ہوئے ان کے ذہن میں کوئی ایسا آئیڈیا کوندے سے لپکتا ہے کہ سب حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ کوئی بالکل نئی چیز لے کر آتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تواس سارے عمل کے پیچھے یہی تخیل کی قوت کارفرما ہے۔

تخیل کی قوت کو سب انسانوں میں موجود ہوتی ہے مگر اس کا شعوری اور درست رخ پر استعمال تخلیقی جواہر کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ وہ نوجوان جو زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، اگر اپنی اس پوشیدہ صلاحیت کو بروئے کار لانے لگیں تو کچھ عجب نہیں کہ ایک دن وہ اپنی طے کردہ منزل پر پہنچ جائیں گے ۔

 

بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے