چوہدری صاحب کی معصومیت پر قربان جاؤں

ہائے رے میں صدقے جاؤں اپنے وزیر داخلہ کے ۔۔۔ کتنے معصوم ہیں ، چھوٹی سے چھوٹی بات انہیں سمجھانی پڑتی ہے۔۔ بعض اوقات ایسی ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ لگتا ہے یہ گانا ان کے لیے ہی لکھا گیا ہے کہ دل تو بچہ ہے جی۔۔۔ بچوں جیسی ہی بات کرتے ہیں۔۔

پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے معصومیت میں کہنے لگے مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی مقدمہ ہی نہیں ، انہیں گرفتار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ وہ تو بعد میں ان کے ہی ساتھی ارکان پارلیمنٹ نے اگلے روز مولانا عبدالعزیز آف لال مسجد کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کی کاپیاں چیئرمین سینیٹ کو دکھائیں تو چوہدری صاحب کو معلوم ہوا کہ ایسے مقدمات کی کاپیاں بھی لوگوں نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں جن کا علم وزیر داخلہ کو نہیں۔۔ لیکن اس میں چوہدری صاحب کا کوئی قصور نہیں ہے۔۔

مقدمہ تو تھانے میں درج ہوتے ہیں اور چوہدری صاحب اگر ہر ایف آئی آر کا ریکارڈ رکھنے لگیں تو ایک ہی مہینہ میں گھر بھر جائے۔۔ ان مقدمات کی معلومات تو ایس ایچ او صاحبان کو بھی نہیں ہوتی۔۔۔ ویسے تو میرے ایک دوست کے مطابق اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزیر داخلہ صاحب کا دائرہ کار بھی وفاقی دارالحکومت کے آئی جی جتنا ہی رہ گیا ہے۔

ارے ہاں اپنے چوہدری صاحب دیکھئے ناں۔۔ اپنی معصومیت میں پھر کتنی سادگی سے کہہ گئے کہ مصطفی کمال کی پریس کانفرنس پر تو مقدمہ درج نہیں ہو سکتا، ایم کیو ایم کی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ تعلقات کے حوالہ سے انہیں کوئی ٹھوس ثبوت لانا ہوں گے ۔ یہ کیا کہ وہ صرف میڈیا پر پریس کانفرنس کریں اور ہم اس پر ایکشن لیں۔

ظاہر ہے جناب ۔۔ وہ الطاف حسین کے بارے میں بات ہو رہی تھی، کسی شعیب شیخ کے حوالہ سے تو بات نہیں ہو رہی تھی، جسے کسی ثبوت کے بغیر ہی ایف آئی اے کے حوالہ کردیا جائے ۔۔۔ وہ جناب ایم کیو ایم ہے کوئی بول ٹی وی یا ایگزیکٹ تھوڑی ہے جسے کسی بھی اخباری خبر کے نتیجہ میں بند کر دیا جائے۔

جی ہاں۔۔ اخباری خبر بھی ایک ایسے غیر ملکی رپورٹر کی جسے پاکستان سے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر نکالا گیا تھا، وقوعہ بھی ایسا جو ہمارے ملک میں نہیں پیش آیا۔۔۔ جرم بھی وہ جس کے لیے مدعی کا ہونا ضروری۔۔۔ یہاں نہ کوئی مدعی تھا، نہ جرم ہماری سرزمین پر ہوا لیکن محض ایک اخباری خبر پر ایگزیکٹ کمپنی کے تمام دفاتر ایک ہی دن میں سیل ہوگئے ، درجنوں لوگ گرفتار ہوئے جن میں وہ سرمایہ کار بھی شامل تھا جو کسی اور ملک سے کما کر اس ملک میں ، اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا۔

ایک اخباری خبر کے نتیجہ میں ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے، بول ٹی وی میں بھرتی ہونے والے تمام صحافیوں کے گھروں کے چولہے بجھ گئے۔۔۔ لیکن وہ الزام آج بھی ثابت نہیں ہوسکا، پہلے گرفتاریاں ہوئیں پھر شواہد تلاش کرنے کا عمل شروع ہوا مگر آج تک وہ شواہد نہ مل سکے ، چالان جمع نہ ہو سکا۔۔ لیکن جناب ظاہر ہے وہ ایم کیو ایم نہیں۔

اسی لیے آج بھی بول ٹی وی کے ملازمین اپنی بچوں کی خواہشات کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہیں، ایگزیکٹ کے ملازمین اپنے مالک کے ایک اچھا نیوز چینل، ایک اچھا اخبار کھول کر صحافیوں کے حالات زندگی بہتر بنانے کا خواب دیکھنے کی سزا بھگت رہے ہیں، لیکن انہیں سزا بھگتنا ہوگی کیونکہ وہ ایم کیو ایم نہیں۔۔

بول ٹی وی کے ملازمین کو میرا مشورہ ہے کہ اپنے حقوق لینے لیے وہ سب ایم کیو ایم میں شامل ہو جائیں اور جئے الطاف بھائی کا نعرہ لگائیں تو شاید ہمارے معصوم وزیر داخلہ بھی ان کے لیے کچھ کر سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے