اگر یہ جاپان ہوتا

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیراعظم پاکستان کی دختر نیک اختر محترمہ مریم نواز طرزِ حکمرانی کو عوام کی بہتری کے لیے بروئے کار لانے میں کوشاں رہتی ہیں-اِس ضمن میں ان کا حالیہ اقدام اسلام آباد کے سرکاری سکولوں کی حالتِ زار کو بہتر بنانے سے متعلق ہے- سرکاری سکولوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنا یقیناًمعیارِ تعلیم میں بھی بہتری کا باعث ہوگا-

ایسے ہی ایک سکول کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے ہمراہ مریم نواز نے کلاس روم کے دورہ کے دوران طالب علموں سے جب یہ دریافت کیا کہ اُن کے والدین کس شعبہء زندگی سے منسلک ہیں تو ایک طالب علم نے کہا کہ اس کے والد مالی ہیں اور دوسرے نے جواب دیا کہ اُس کے والد ڈرائیور ہیں- ٹی وی اسکرین پر دکھائے جانے والے مناظر سے اِن طالب علموں کے چہروں پر اعتماد کی کمی اور ندامت دکھائی دی-ہوٹر والی گاڑیوں کے شور اور وزیروں کی فوج ظفر موج اور کیمروں کی چکاچوند روشنی کے جھرمٹ میں بڑے لوگوں کے درمیان یقیناًطالب علموں کو اپنے والدین کا عام شہری ہونا محسوس ہوا ہوگا-

کسی قوم میں قوم سازی کا عمل آزاد اور مربوط نظریہء تعلیم کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا- برطانوی سامراج کے عہد میں لارڈ میکالے کا دیا ہوا نظریہء تعلیم غلامی کو ہندوستان کے عوام میں قابلِ قبول بنانے کے نقطہء نظر سے ترتیب دیا گیا-آزادی کے بعد پاکستان میں نظریہء تعلیم کو ایک آزاد ملک کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس کی گئی – لہذا آج بھی ہمارے نظام تعلیم میں جب طالب علموں کو درخواست لکھنا سکھائی جاتی ہے تو مؤدبانہ التماس، فدوی اور درخواست کرنے کی معذرت سے لے کر سر کے خطابات تک کو درخواست کا لازمی حصہ قرار دیا جاتا ہے-

مریم نواز کے طالب علموں سے سوالات سن کر مجھے ملتان یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر انوار احمد کا بیان کردہ ایک قصہ یاد آ گیا- ڈاکٹر انوار جاپان میں اُوساکا یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے-پاکستان کی مختلف جامعات میں درس و تدریس کا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ نے انھیں جاپان میں تعلیمی حساسیت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا- ڈاکٹر انوار کے مطابق جاپان میں کسی طالب علم سے یہ سوال کرنا مناسب خیال نہیں کیا جاتا کہ اس کے والدین کیا کرتے ہیں- طالب علم صرف طالبِ علم شمار ہوتا ہے- یہ اس لیے ضروری خیال کیا گیا کہ اگر ایک طالب علم کا والد صنعتکار ہو اور دوسرے طالب علم کا والد کارخانے میں مزدور ہو تو اس میں احساس کمتری اور محرومی پیدا نہ ہو-

اسی طرح ڈاکٹر انوار کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ امتحان کے نتائج کلاس روم میں اعلان کرنے کی بجائے انفرادی طور پر طالب علموں کو فراہم کیے جائیں تاکہ امتحان میں ناکامی سے کسی طالب علم کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو- جاپان کی تعلیمی اخلاقیات جاننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ بلاشبہ کسی قوم میں قومی حمیت، غیرت اور خودداری یوں ہی نہیں جنم لیتی بلکہ اس کے لیے ایک آزاد اور مربوط نظریہء تعلیم لازمی امر ہے- یقیناًاگر یہ جاپان ہوتا تو مریم نواز طالب علموں سے ان کے والدین کے پیشہ کے بارے میں سوال نہ کر سکتیں-

[pullquote]پروفیسر ڈاکٹر طاہر ملک نیشنل یونی ورسٹی آف مارڈرن لینگویجز میں استاد ہیں ۔ تاریخ ، ادب اور سیاسیات ان کی دلچسبی کے مرکز ہیں ۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے