وزیر اعظم نواز شریف سے شکوہ

دو ہزار تیرہ کے الیکشن جیتنے کے بعد جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو اندازہ ہوا کہ کس قدر خوش قسمت ہے یہ شخص کہ جو تیسری بار ملک کا وزیر اعظم بن گیا ہے ، اس بات سے قطع نظر کہ الیکشن میں کیا ہوا دھاندلی ہوئی نہ ہوئی وہ سب بہت پیچھے رہ جاتا ہے ، وزیر اعظم نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بنے ، اور جب ہم سوچتے ہیں کہ کس طرح مشرف نے مارشل لا لگایا نواز شریف کو جیلوں میں قید رکھا پھر جلا وطن کر دیا کئی سال تک اپنی مٹی اور دھرتی سے دور نواز شریف نے مشکل ترین دور گزارا ، ہر لمحہ پاکستان کے بارے سوچتے رہتے ہوں گے ہر وقت پاکستان کی فکر ہو گی ، اور کس طرح پاکستان میں ان کے نائب جاوید ہاشمی نے ن لیگ کو سہارا دیا تن تنہا پاگلوں کی طرف مشرف سے لڑتا رہا اپنے لیڈر نواز شریف کے لیے اور پھر نواز شریف کی واپسی کا وقت آ گیا ،

نواز شریف واپس پاکستان پہنچ گئے ، پھر ہمارے پنجاب کی اور بے وقوف عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی پھر ایئرپورٹ پر میلوں لمبے قافلے اور نواز شریف کے استقبال ہوئے ، نواز شریف الیکشن لڑنے لگ گئے اور جیت گئے پھر یوں ہوا کہ دو ہزار تیرہ کا الیکشن آ گیا ، نواز شریف نے میدان مار لیا اور ملک کے تیسرے وزیر اعظم بن گئے ، شاید اٹک قلعے کی سلاخوں میں انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہ باہر بھی نکل سکیں گے یا نہیں شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا وہ پھر اس کروڑوں لوگوں کے ملک کے سربراہ بنیں گے پھر جب انہیں جلا وطن کیا گیا تو بھی انہوں نے کبھی خواب میں ہی شاید دیکھا ہو گا کہ وہ اس ملک میں اس کرسی پر بیٹھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بیٹھ گئے اس کرسی پر ، اور نواز شریف ملک کے اس وقت تیسری مرتبہ وزیر اعظم ہیں

اب یہاں پر مجھے وزیر اعظم سے کچھ شکوہ ہے کچھ گلے ہیں ، میں ذاتی طور پر کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی شخصیت سے متاثر نہیں ہوں ، مجھے پاکستان میں قائد اعظم کے بعد صرف دو سیاستدان پسند آئے ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرے جاوید ہاشمی

وزیر اعظم نواز شریف نے جب دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے بعد وزارت عظمی کا حلف اٹھایا ہو گا تو ان کا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا ہو گا اس ملک سے انہیں دھکے دے کر کرپشن کے جالوں میں پھنسا کر باہر پھینک دیا گیا تھا اس ملک میں وہ سب سے سپریم اور سب سے معتبر عہدے پر پھر پہنچ گئے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں نواز شریف کی قسمت کا پچاس فیصد کردار ہے اور پچاس فیصد عوام کی بے وقوفانہ سوچ کا ، لیکن اب جب وہ وزیر اعظم بن گئے تھے تو بس کر دیتے ، مجھے صرف ایک گلہ ہے دیکھیں میں شاید جذباتی ہوں یا آپ بھی یہ سوچتے ہوں گے کہ ایک شخص ایک ملک کا وزیر اعظم بن جاتا ہے اس کے بعد اس کو کیا چاہیے ہوتا ہے ، اور کس چیز کی حوس لالچ رہ جاتی ہے ، کاروبار ماشا اللہ اربوں ڈالر کا پہلے ہی ہے بیٹے کاروبار کو اس طرح پڑے ہوئے ہیں جیسے کوئی بھوکا کھانے کو پڑتا ہے ،

اس مقام پر جب جیل اور جلاوطنی کاٹ کر آپ کی قسمت آپ کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھا دیتی ہے تو خدارا اور کیا چاہتے ہیں آپ ، خدا کے لیے اپنے کاروبار کو وسعت دینا بس کر دیں ، اپنا کاروبار اربوں ڈآلر واپس ملک میں لے آئیں ، ملک کو وسعت دیں ، اس ملک کے ہر شخص کی بہتری سوچیں اس سے زیادہ کی کیا اوقات ہے آپ کی ؟ کیا سوچ ہے آپ کی ؟ جو پیسہ ہے وہ آپ کی چھ نسلیں عیاشی کی طرح کھا سکتی ہیں پھر کس چیز کی حوس ہے کیا جنون ہے کہ اپنے اور اپنے خاندان کے کاروبار کے لیے ملک کو نظر انداز کیا ہوا ہے ، اتنا اچھا موقع شاید ہی دنیا میں کسی کو ملتا ہو گا کہ جیل اور جلا وطنی کے بعد وزیراعظم ۔۔۔ شاید اللہ نے آپ کو موقع دیا کہ آپ اپنے کاروبار کو ختم کر کے اپنے رشتہ داروں سے دور ہو کر صرف اور صرف ملک کے لیے سوچیں ، اپنے اندر ایسا رویہ کیوں پیدا نہیں کرتے کہ لوگ دل سے آپ کو چاہنے لگ جائیں لوگ آپ کے لیے کٹنے مرنے کو تیار ہوں ،

پتہ نہیں آپ ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ اگر یہ پانچ سال جو اب ڈھائی سال سے بھی کم رہ گئے ہیں یہ صرف قوم پر ملک پر وقف کر دیں اور آپ ہمیشہ کے لیے ملک کے وزیر اعظم رہیں گے ہر الیکشن جیتیں گے کوئی دھاندلی کی آواز نہیں نکال سکے گا اس ملک پر آپ کا پورا خاندان کئی دہائیوں تک حکومت کرے گا صرف ایک دفعہ خود کو اور کاروبار کو الگ کر کے دیکھیں ملک و قوم کے بارے دل سے سوچ کر دیکھیں ، صالح ظافر اور حنیف خالد سے خبریں کروا کے کہ آپ عوام کے لیے بہت پریشا ن ہیں اس طرح نہیں ، حقیقت میں کر کے دیکھیں کہ ملک کا ایک بچہ بچہ آپ کے گن گاتا رہے ،

وزیر اعظم صاحب آپ واقعی ملک کی حالت بدل سکتے ہیں اس ملک میں اتنے مسائل نہیں ہیں جتنے بنا دیئے گئے ہیں صرف اپنے ہاتھ روک لیں عوام تک پہنچائیں وہ سب پیسہ وہ سب کاروبار جو آپ بڑھانا چاہتے ہین جو اپ کے ارد گرد اسحاق ڈآر اور منشا وغیر ہ ہیں ان کی باتوں میں نہ آئیں ، روک لیں سب کچھ جو آپ کے لیے ہے اور اس کا رخ عوام کی طرف موڑ دیں ،

آج بل گیٹس جیسے دنیا کے امیر ترین لوگ بھی اپنی دولت کا اربوں ڈالر عطیہ کر دیتے ہیں دولت کا پچاس فیصد غریبون کے لیے تعلیم و صحت کے لیے وقف کر دیتے ہیں آپ سے ایک روپیہ بھی عطیہ اور غریبوں کے لیے نہیں مانگ رہے صرف عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کریں اتنی سی درخواست کر رہے ہیں آپ ہمشیہ کے لیےسرخرو ہو جائیں ، اس ملک کے ہر بچے کو حسین نواز اور ہر بیٹی کو مریم نواز سمجھیں ، ہر شخص کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمجھیں ، ہر غریب کا سہارا بنیں، کبھی آپ کو تو اتفاق نہیں ہوا کبھی تھرپارکر میں ننگے تن بچوں کو دیکھیں ،ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں جہاں آپ کبھی نہیں گئے ایک دفعہ جا کر دیکھیں لوگ ایک دودھ کے ڈبے کو ترس رہے ہیں کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ لاکھوں افراد روزانہ کھانا نہیں کھاتے ان کی بھوک کا اندازہ لگائیں آپ تو ماشا اللہ سعودی عرب میں بھی لاہور سے پائے منگوا لیتے تھے لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو بھوک سے مر جاتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے