ہیرو کی تلاش

ہیرو کی تلاش

آخر کیا وجہ ہے کہ ہم ہر طاقتور آرمی چیف میں "کچھ نہ کچھ” ڈھونڈنے لگتے ہیں-
جیسے کہ ہمیں صدر ایوب میں ایک مسیحا نظر آیا کرتا تھا
ضیاء میں امیر المومنین
مشرف میں اتا ترک
کیانی سپر ہیرو تھا (بہت سے مشہور لکھاریوں کا)
اور اب راحیل شریف میں، فاتح غزوہ ہند و سند محمد بن قاسم…

دنیا کی ہر قوم ایک فوج رکھتی ہے، لیکن ہمارے ہاں مشہور ہے کہ ہماری فوج نے قوم رکھی ہوئی ہے-
یہ خطہ ایسا بانجھ خطہ ہے کہ ہر زمانے کے طاقتور کے سامنے سرنگوں ہو جانا اس کی فطرت میں شامل رہا بلکہ اگر ڈی این اے کا مطالعہ کیا جائے تو غلامی کے جرثومے ہمارے جینز میں بھی ملیں گے-
غلام کی ایک فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات تک کو لیڈ نہیں کر پاتا ، وہ دل سے چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو اسے لیڈ کرے کوئی اسے بتائے کہ اللہ وسایا تو نے یہ پہاڑ اکھاڑ کر اُدھر رکھنا ہے، اللہ وسایا حکم بجا لائے گا، لیکن وہ کبھی بھی خود کو چھوٹی سی کمانڈ تک نہیں دے پائے گا-

آرمی چیف تو واقعی ایک طاقتور شخصیت ہوتی ہے بالخصوص پاکستان کا آرمی چیف ، لیکن ہماری مغلوب سوچ تو پرائے جنگجوؤں کو بھی اپنا نجات دہندہ سمجھنے میں دیر نہیں لگاتی، اللہ بخشے، عمر ثانی ملا عمر اور اسلام کا ہیرو نمبر ون میرا شیر اسامہ بن لادن ٹائپ خون گرما دینے والے ترانے آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔
اب تو ہمارا حال اتنا پتلا ہو چکا ہے کہ چند سال فرضی ہیرو نہ تلاش کر پائیں تو پرانے پر سفیدی مار کر، نوا نکور کر کے دیوار پر ٹانگ لیتے ہیں۔
شاید اسی لیے میرا استاد کہتا ہے سن سنتالیس میں لوگ نہیں، زمین کا ایک ٹکڑا آزاد ہوا تھا-

اصل میں مسئلہ پتہ کدھر ہے؟
ہم آزاد کیوں نہیں ہو رہے؟
ہم اہنی زنجیریں کیوں نہیں تڑوا پا رہے؟
کبھی سوچا ہمیں ازل سے لے کر اب تک اپنے کٹھن حالات سے نکلنے کے لیے ہمیشہ ایک نجات دہندہ ایک سپر مین یا پھر ایک مسیحا ہی کیوں چاہیے ہوتا ہے؟
سنیے، اسکی ایک بڑی ہی جینوئن قسم کی وجہ ہے…
ہمیں بچپن ہی سے یہ بتایا گیا تھا کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے، فضول ہے لایعنی ہے اور اس کے لیے محنت کرنا اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا وقت کا زیاں بلکہ گناہ ہے۔ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا اور وہ سب کچھ جو "ہبل” سے نظر آ رہا ہے اس کی قیمت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر یہ دنیا اتنی حقیر ہے تو اسے تخلیق ہی کیوں کیا گیا؟ اور بالفرض اگر تخلیق کیا بھی گیا تو کیا ایک ایسی چیز جو حقیر ترین ہو، مرے ہوئے مچھر کے پر سے بھی کم اہمیت رکھتی ہو اسے بنانے کے لیے خدا تعالٰی چھ دن اور سات راتوں کی شفقت فرمائے گا؟ اور وہ چھ دن اور سات راتیں جو سورج کی پیدائش سے کھربویں سال پہلے کی ہیں ان کی طوالت کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟ میرا عظیم خدا ایسی حقیر شے پر ایسی محنت آخر کیوں کرے گا؟
آخر کچھ تو ہے جسے ہم سمجھ نہیں پا رہے…..

ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا پتھر کے اندر ایک اور پتھر اور اس پتھر کے اندر ایک اور پتھر میں بیٹھے کیڑے کو کھلاتا ہے، لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ اب تک ہزاروں جانداروں کی اقسام صرف خوراک کی کمی کے باعث ناپید ہو چکیں ہیں-

ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ بھوک اور افلاس قسمت میں لکھی گئی ایک اٹل حقیقت ہے اور قسمت کو بدلنے کا سوچنا اک سعی لاحاصل ہی نہیں بلکہ کفر بھی ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ جن ملکوں میں معاشی و صنعتی انقلاب برپا ہو چکا وہاں بھوکا انسان تو کیا جانور بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ میڈیکل سائنس میں انقلاب کا عالم یہ ہے کہ ہر ہر سال انسانوں کی اوسط عمر تیزی سے بڑھ رہی ہے-
قسمت؟ وہ کیا ہے…؟ ہم نہیں سمجھ پا رہے، ہمیں قسمت کی ایک قابل قبول تعریف پر متفق ہونا ہی پڑے گا-

ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ چونکہ ہم حق پر ہیں اس لیے ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہونے کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں اور یہ ایک آزمائش ہے جس کے بدلے ہمارے لیے بہشتیں تیار کی جا چکیں ہیں، سو ہم نے ذلالت کو مقدر جان لیا۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ ہمارے ہی کچھ بھوکے ننگے خطوں سے زمین نے پانی کے بجائے آگ پکڑنے والا مواد اگلنا شروع کر دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم سمجھ جاتے کہ ہم ذلیل و خوار ہونے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہم اپنی قسمت بدلنے پر قدرت رکھتے ہیں لیکن نہیں سمجھنا تھا اور ہم نہیں سمجھے۔ ہمارے کچھ خطے اس جلنے والے مواد یعنی تیل کی بدولت دنیا و آخرت کی تمام نعمتوں کے حقدار بن بیٹھے لیکن ہم میں سے جن کے حصے تیل کی نعمت نہ آ سکی وہ اسی رستے ہر چلتے رہے، ذلالت اور حقارت کے رستے پر…

اور ہاں ہمیں یہ بھی تو بتایا گیا تھا کہ تمہاری نسلیں ذلالت کے اندھیروں میں گم ہوتی رہیں گی ہھر ایک مسیحا آئے گا اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ دنیا (چند سال کے لئے) آئیڈیل جگہ بن جائے گی-
(تب تک پاس کر یا برداشت کر…. )
لیکن آج بھی کوئی ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ باری تعالٰی نے صرف "ان چالیس آئیڈیل سالوں” کے لئے کھربویں سالوں کی کائنات تخلیق کر ڈالی؟

ہمیں تو اور بھی بہت کچھ بتایا گیا، پڑھایا گیا، سیکھایا گیا، دماغوں میں ٹھونسا گیا، جو طوالت کے باعث یہاں شامل نہیں جا رہا لیکن غور کر کے جانا اور سمجھا ضرور جا سکتا ہے-
خیر… یہ سب تو وہ تھا جو ہمیں ہمیشہ سے بتایا گیا اور جسے ہمارے بزرگوں نے آمنا و صدقنا کہہ کر قبول کیا لیکن اب جب ہمیں ہوش آیا تو ہم خود کو تنزلی کے گہرے گھپ اندھیرے کنویں میں اوندھے منہ گرا ہوا پاتے ہیں. لیکن ہم اپنے اجداد کی طرح آمنا وصدقنا نہیں کہیں گے بلکہ ہم پوچھیں گے اور اگر وقت کا امام ہمیں یہ سب کچھ بتانے سے یونہی قاصر رہے گا تو پھر… ہم سے سننے کے لیے خود کو تیار کر لے-
ہمیں بنا بنایا گھڑا گھڑایا ہیرو ملے نہ ملے، لیکن قوم کو وہ ہیرو ضرور ملے گا جو قوم کا ہیرو ہوگا….
ہاں ہاں ہم اپنے ہیرو خود بنیں گے-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے