جنرل احسان ہمارےمعاون جبکہ جنرل محمود طالبان کے ہمدرد تھے۔ سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف

پاکستان میں امریکی سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف رابرٹ ایل گرینئیر کا کہنا ہےکہ جنرل احسان اگر آئی ایس آئی کے سربراہ رہتے تو وہ بھی حکومت پاکستان کی تبدیل شدہ پالیسی کی روشنی میں احکامات پر عمل کرتے تاہم وہ طالبان کی طرف رجحان رکھتے تھے ، میرے دور میں ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے ثابت ہو کہ 9/11کے بعد پاکستان القائدہ یا اسامہ بن لادن کی مدد کرتا تھا ۔

اسلام آباد میں جیو نیوز کے سینئر نمائندے اعزاز سید سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 9/11کے بعد جنرل احسان کے دور میں سی آئی اے اور ایس ایس آئی کے درمیان تعاون بہترین رہا ۔ رابرٹ ایل گرینیر کو سی آئی اے کیطرف سے پاکستان میں 1999سے 2002کے وسط تک تعینات کیا گیا تھا ۔ وہ اسلام آباد
سے افغانستان کے امور کی نگرانی بھی کرتے تھے ۔ پاکستان کے بعد وہ عراق میں تعینات کردئیے گئے تھے

https://www.youtube.com/watch?v=8tNldEfOh6Y

۔ حال ہی میں ان کی انگریزی زبان میں کتاب، قندھار میں 88دن ، کے عنوان سے بھی سامنے آئی ہے جسکی تقریب رونمائی کے سلسلے میں وہ خصوصی طورپر پاکستان آئے تھے۔ اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے رابرٹ گرینیر نے 9/11کے فوری بعد کا احاطہ کرتی اپنی یادداشت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے دور میں ،میں نے کبھی ایسے ٹھوس ثبوت نہیں دیکھے جو ثابت کریں کہ پاکستان نے القاعدہ یا اسامہ بن لادن کی مدد کی، اور میرے خیال میں اس حوالے سے سی آئی اے اور آئی ایس آئی میں کوئی بداعتمادی نہیں تھی ۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے دور میں آئی ایس آئی کے تین سربراہوں جنرل ضیاء الدین بٹ، جنرل محمود اور جنرل احسان الحق کے ساتھ کام کیا مگر آپ کی نظر میں ان میں سے کون سب سے بہتر تھا؟َ تو اس پر رابرٹ ایل گرینیر کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں نائن الیون کے واقعے کے بعد جنرل احسان الحق کے ساتھ انکا تعاون رہتا تھا تاہم جنرل احسا ن سے قبل تعاون محدود تھا،ٴ اس لیے ہمارے نکتہ نظر میں اور جوائنٹ مشن کے حوالے سے ہمارا جنرل احسان الحق کے ساتھ تعاون سب سے زیادہ موثر رہا۔

ذہین امریکی انٹیلی جینس افسر نے اس معاملے میں جان بوجھ کر سابق آئی ایس آئی چیف جنرل محمود کا ذکر نہ کیا جو 9/11کے روز خود اس وقت کے میجر جنرل اور آئی ایس آئی کے افسر جاوید عالم کے ہمراہ امریکہ موجود تھے اور انکی ادارے سے جنر ل مشرف کی طرف سے برخواستگی پر بڑی خبریں سامنے آئی تھیں۔ اس نمائند ے نے ان سے پوچھا کہ سی آئی اے کے سابق سربراہ مسٹر جارج ٹیننٹ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جنرل محمود کو جنرل مشرف نے عہدے سے اس لیے ہٹایا تھا کہ شاید وہ دشمن کے بہت قریب تھے، کیا یہ حقیقت ہے کہ جنرل محمود سرحد پار دشمن عسکریت پسندوں اور انتہا پسندوں کے بہت قریب تھے؟ اس پر رابرٹ ایل گرینیر نے نپا تلا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ،میرے خیال میں یہ اس وقت بہت واضح تھا کہ جنرل محمود نے اس وقت کے پاکستان کے طالبان کی حمایت کی پالیسی کو مکمل طور پر سپورٹ کیا تھا، اور میرے خیال میں وہ ذاتی طور پر بھی طالبان کے افغانستان میں ان کے کردار کی وجہ سے ان کااحترام و حمایت کرتے تھے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ ڈی جی آئی ایس آئی رہتے تو وہ بھی دئیے گئے احکامات پر عمل کرتے کیونکہ پاکستان کی طالبان سے متعلق پالیسی تبدیل ہوچکی تھی/ مگر پھر بھی میرا خیال ہے کہ ان کا جھکاؤ طالبان ہی کی طرف تھا۔

انہوں نے بتایا کہ23 دسمبر 2011کو اس وقت کے سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ نے انہیں امریکہ سے اپنی پوری چین آف کمانڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے فون کیا تھا ۔ اس فون کال میں جارج ٹینٹ نے انہیں بتایا تھا کہ افغانستان کے تمام ٹریننگ کیمپ خالی ہیں جن پر بمباری کا کوئی فائدہ نہیں لہذا انہوںنے مجھے ایک ورکنگ پیپر بنا کر بھیجنے کی ہدایت کی جسے رابرٹ نے تیارکرکے انہیں ارسال کیا اور وہ بعد میں امریکہ جنگی کابینہ نے منظور کیا ۔ رابرٹ کے مطابق امریکہ نائن الیون کے بعد سے 2004تک پہلی افغان جنگ جیتا جبکہ دوسری ابھی تک جاری ہے جس میں جیت نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کی طرز کے دوبارہ دھماکوں کی صورت امریکہ زیادہ سخت ردعمل کا مظاہرہ کرسکتا ہے اور ممکنہ طور پر ایک تیسری جنگ کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے ۔ رابرٹ ایل گرینیر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حامد کرزئی شروع دن سے سی آئی اے کے ساتھ تھے اور وہ ہمارے آدمی تھے مگر نائن الیون کے بعد انہیں اپنے آپ کو ثابت کرنا تھا۔انہوں نے کہا کہ امریکہ میں آئی ایس آئی کو ہمیشہ منفی لیا جاتا ہے لیکن میں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو کہتا ہوں کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتو آپ پاکستان کی حکومت سے بات کریں کیونکہ آئی ایس آئی حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کرتی ہے اور یہ ایک پیشہ ور خفیہ ادارہ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے