ایک گلگتی کاشت کار کی فریاد

ان دنوں گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا تعین کیلئے مختلف حوالوں سے بحث و مباحثہ جاری ہے اس بحث سے تو بعض اوقات یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید آئینی حقوق یعنی قومی اسمبلی ،سینٹ اور دیگر قومی اداروں میں نمائندگی ملنے سے سارئے مسائل ختم ہو کر پورے گلگت بلتستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گے۔حالانکہ گلگت بلتستان میں آئینی حقوق کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ایسے ہیں جن پرسنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ہماری نظر میں اس وقت دو اہم مسائل ایسے ہیں جن پر بات ہونا لازمی ہے اُن میں ( الف) کاشتکاری(مزارع) اور (ب) جاگیرداری کا نظام ہیں ۔اس نظام کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے ختم کر دیا تھا ۔اس کے باوجود عملا یہ نظام وہاں پرمختلف شکلوںمیں موجود ہے ۔ پہلے ہم کاشتکاری (اصل میںیہ مزارع کا نظام ہے مگر گلگت بلتستان میں اس کیلئے کاشتکار کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے) کے نظام پر بات کرتے ہیں ۔

اس نظام کی وجہ سے ہی راقم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے باوجود اپنے آبائی گاؤں جانے کے بجائے جلاوطنی کی سی زندگی گزار نے پر مجبور ہے ۔گلگت بلتستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پر کاشتکاری (مزارع)کا نظام رائج ہے جس کی وجہ سے ان مزارعیں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں کیونکہ زمین کے مالکان اپنے کاشتکاروں کو مختلف انداز میں تنگ کرتے رہتے ہیں راقم کے اپنے گاؤں سلینگ میں کچھ کاشت کار ایسے بھی ہیں جنہیں مالکان کی جانب سے مکان بنانے سے بھی منع کرتے ہیں ۔یہاںپر یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلینگ کے کاشتکاروں کے ایک گروپ اور ضلع گانچھے ایک معزز اور مذہبی خاندان کے درمیاں دو عشروںسے مقدمہ بازی جاری ہے چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے ہم اس کے جزئیات اور اس کے حسن و قبح پر گفتگو کرنے سے گریزکرتے ہیں ۔

کاشتکاروں پرروا رکھے جانے والے مظالم کی داستان کیلئے تو الگ سے کتاب لکھنے کی ضرورت ہے ، جس کیلئے اس کالم کے دامن میں گنجائش نہیں ہے ۔یہ غلامی کی ایک ایسی مکروہ شکل ہے جس سے جان چھڑانے کی فی الحال کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی ہے۔کیونکہ انسانی حقوق کی اس پامالی پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے آنکھیں بندکررکھی ہیں۔یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کاشت کاروں اور زمین کے مالک کے درمیان ہونے والے معاہدوں کو اگر کوئی منصف مزاج پڑھے گا تو اسے وہ ظلم سے تعبیر کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

راقم کے اپنے آباء (تایا ،والد اور چچا) اور زمین کے مالکوں کے درمیان طے پانے معاہدہ اس ظالمانہ نظام کی ایک عمدہ مثال ہے کیونکہ اس معاہدے کی تحریر کو پڑھنے والا اگر انسانی حقوق کا خیال رکھنے والا ہو تو وہ یہ کبھی نہیں کہے گا کہ معاہدہ باہمی رضامندی سے ہوا بلکہ وہ یہ کہے گا مجبوری ،کمزوری ،لاعلمی اور جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مالک نے کاشتکار پر مسلط کیا ہے کیونکہ اس معاہدے میں ایک توجہ طلب جملہ یہ ہے کہ کسی بھی وقت مالک کی طرف سے کاشتکارکو کوئی حکم دیاجائے تو وہ اسے فوری طور پر بجا لائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس معاہدئے کی روح یہ ہے کہ کا شتکارکو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آنے کی صورت میں بھی اسے پہلے اپنے مالک کے احکامات بجا لانے ہیں۔

اس کی مثال بھی موجود ہے کہ کم از کم دس سال پہلے ایک دفعہ عصر کے آخری وقت میں نماز ادا کرنے کیلئے وضو کرنے ہی لگا تھا تو ہمارئے مالک نے کسی کام کیلئے بلا بھیجا تو ہم نے نماز پڑھ کر آنے کیاجازت چاہی جس کیلئے اجازت تو نہیں ملی مگر جب ہم نماز پڑھ کر ان کے در پہ حاضر ہوئے تو وہ اپنے گھر سے کہیں جا چکے تھے جس پر بعد میں انہوں نے جس طرح اپنی خفتگی کا اظہار کیا وہ راقم کیلئے حیرت کے سوا کچھ نہیں تھا ۔حالانکہ اس طرح کے معاہدئے اسلام کے زیرین اصولوں کی بھی خلاف ہیں کیونکہ اسلام بنیادی طور پر ایک انسان کے دوسرئے انسان کا غلام ہونے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے یہی وجہ ہے بعض گناہوں کا کفارہ غلام آزاد کرنے کو قرار دیا گیا ہے۔

دوسری توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ہم نے مالکو ں سے پہلے سے آباد زمین بھی نہیں لی تھی بلکہ ہمارے آباء ( تایا ،والدصاحب اور چچا )نے بنجر اور پتھریلی لے کر اسے قابل کاشت بنایا جس کیلئے ان کی زندگیاں صرف ہوئیںلیکن معاہدئے کے وقت سے ہی ان بنجر اور پتھریلی زمینوں کے عوض لگان وصول کرتے رہے اورساتھ ان کے خدمات بھی بجا لاتے رہے اُن کی انہی تکالیف کو دیکھتے ہوئے ہمائے گاؤںکے لوگ اپنی بیٹی ہمارئے آباء سے بیاہنے کیلئے تیار نہیںہوئے۔تاہم اس بات کا تذکرہ بھی لازمی ہے کہ ماضی کی نسبت مالکوں سے ہمارئے تعلقات قدرئے بہتر ہیں ۔اگر میں یہاںپر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے سلسلے میں ان کے تعاون کو فراموش کروں تو ہرگز انصاف نہیں ہوگا۔اس کے باوجود آج بھی جس قسم کے مطالبے ہم سے کئے جا رہے ہیں وہ راقم کے نزدیک کسی طرح پر قرین انصاف نہیں ہیں۔
اس قسم کے معاہدوں کی تاریخ روایات جاننے کیلئے تاریخِ بلتستان کے مصنف محترم یوسف حسین آباد ی سے رابطہ کرنے پر انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اس قسم کی خانگی خدمت کو علاقائی روایات قرار د یا۔ ان مطالبات کے حوالے سے ضرورت پڑنے پر مزید بھی چیزیں ضبط تحریر میں لائی جائیں گی۔

اب ہم جاگیرداری نظام پر با ت کرتے ہیں ہم اس کالم کے شروع میں عرض کر چکے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستا ن کے عوام پر مہربانی کرتے ہوئے اس نظام کے خاتمے کا اعلان کیامگر اس پر صحیح طور عمل در آمد نہیں ہوا یعنی ان کی حکومت کا تو خاتمہ ہوگیا مگر ا ن کے دور میں تشکیل پانے والے نظام جوں کا توں برقرار رہا ہے مثال کے طور بلتستان کے علاقے ضلع گانچھے کی بات کروں گا وہاں کے راجا ؤں کے خانداں والوں کو نالہ جات کے مختلف علاقوں سے ابھی بھی لگان وصول ہو رہے ہیں تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ لگان ادا کرنے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ان وہ کیوں لگان ادا کر رہے ہیں۔راقم کے اپنی معلومات کے مطابق جو سینہ در سینہ چل رہی ہیں راجاؤں کے دور میں کسی کی نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیٹی جائیداد کی وارث نہیں بن سکتی تھی اور اس کا مالک راجہ بن جاتا تھا اسی رسم و رواج کے تحت انہیں لگان ملتا ہے جسے مقامی زبان میں ننگ جینگ کہتے ہیں ۔

ایک اور روایت کے مطابق اس زمانے میں ٹیکس ادا کرنے سے قاصر لوگ اپنی زمینوں کو راجہ کے نام کراتے تھے اس کے بعد راجہ ان سے ٹیکس لگان کی شکل میں لیتے تھے۔اس ٹیکس کو مقامی زبان میں مالیہ کہتے ہیں۔اب کاشتکاری(مزارع ) اور جاگیر داری کے نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنا صرف ان لوگوں کے ممکن ہے جو مالی طور پر مستحکم ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اپنی اولادوں کو پڑھانے کے بجائے ورکشاپس اور ہوٹلوں میں بھیجا تاکہ پیسے کما اپنی گردنوں سے سے غلامی کا طوق اتار پھینک سکیں۔ اس لئے گلگت بلتستان میں ہم جیسے نیچلے طبقے کے لوگوں کیلئے آئینی حقوق سے زیادہ یہ مسائل اہمیت رکھتے ہیں ۔تاہم اس مسئلے کے حل کے بھی جب تک عوام اٹھ کھڑئے نہیں ہونگے کوئی حل نکل آنا مشکل ہی ہے۔جس کے نتیجے میںان کی اولاد بھی جلا وطنی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے