” حقوق نسواں بل "

‘عورت مظلوم ہے’ بیشک ایشیائی خطے کا ایک عام سا تاثر یہی ہے. پاکستان میں کئی ایک اینجوز کے وجود میں آنے کی وجہ یہی تاثر تھا. اور یہ تاثر کچھ غلط بھی نہیں. شہر میں کئی گلیاں ہیں جن کے دروازوں سے سر شام ہی پٹتی ہوئی عورت کی چیخ و پکار سنائی دینا شروع ہو جاتی ہے . کہیں بھائی کی غیرت آگ پہ پکنے لگ گئی تو کہیں شوہر کو اپنی عورت کے منہ میں پڑی زبان سے بد اخلاقی کے خطرہ نے دبوچ لیا.

گو کہ کہیں چند ایک مقامات پر معاملہ الٹ بھی ہے، عورت کو اسکا اصل مقام عطا ہوا . میرا آج آپ سب لوگوں سے مخاطب ہونا اسی نعمت کے ملنے پہ ممکن ہوا. مگر بہرحال ایسی مثال اٹے میں نمک کے برابر ہی ملیں گی، . مگر زہریلا سچ یہی ہے کہ اکثریت عورت کی قسمت کو مرد کی حکمرانی ہی چاٹ گئی . کیا کوئی ماں کا لعل اس بات کا دعوی کر سکتا ہے کہ عورت اس معاشرے میں راج کر رہی ہے؟

اس سچ کے سچ یہ بھی ہے کہ اس مخلوق کی چیخ و پکار کو کہیں تو ظلم کی تصویر دکھانے کے لئے نظر بند کی گیا تو کہیں اپنے گھر کا چولہا جلانے کیلئے استعمال کیا گیا.
کیئوں نے ان کے آنسوں کو پونجھا اور انھیں نچوڑ کر ہمدردی کی شیشیاں بھرکربیچا اور سوسائٹی سے داد سمیٹی.
حقوق نسواں بل کی جانب آنے سے پہلے قانون کےحوالے سے ایک بات سنتے جائیں،

” قانون بنانے کو تو بن ہی جاتا ہے مگر اس کا ایک حق بھی ہوتا ہے، جو قانون کو لاگو کرنے سے پہلے ادا کرنا ازحد ضروری ہے ، ورنہ وہ آپ کے معاشرے میں موجودہ مرض کا علاج کرنے کے بجائے، ناگ بن کر مزید نقصان پہچائے گا. دم توڑتے معاشرے کواپنے ڈنگ سے مارڈالے گا. اب مجھ سے پوچھئے، بی بی قانون کا حق کیا ہے ؟ تو میں نے کہنا ہے ، سرکار یہی کہ جن افراد پہ آپ وہ قانون لاگو کرنے جا رہے ہیں. انکی اس مسلے پہ برابر تربیت کی جا چکی ہے. انھیں کچھ خاص سہولیات فراہم کی جا چکی ہیں جن کو استعمال میں لا کر وہ کسی بھی قسم کے غیر اخلاقی عمل سے گریز کر سکتے ہیں . جب اس کے باوجود وہ غلط کام کے مرتکب ہوں تو قانون اپنی ہتھکڑیاں تیار کر لے . کیونکہ اب وہ افراد اس قابل (capable) ہیں کہ ان پہ فلاں فلاں پابندی لگائی جا سکے . ”
یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسا حضرت عمر فاروق (رض) نے اپنے دور خلافت میں قحط کے دوران "چوری کی سزا کو روک دیا. ہاتھ کاٹنے والا قانون جو نبی اکرم (ص) نے شروع کیا تھا ، اسے سیدنا عمر نے روک دیا ، ہٹا لیا .. بھلا کیوں ؟ اسلئیے کہ تب حالات ایسے تھے کہ افراد کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہو پا رہی تھی اور نہ گورنمنٹ اس پہ قابو پانے میں کامیاب ہو رہی تھی تو پھر اتھارٹی ے بنائے ہوئے قانون کی ویلیو زیرو ہو گئی.

اب آئیے پروٹیکشن بل کی جانب !

اوپر کی گئی بات کے تناظر میں، اس بل یا اس قانون کی ویلیو کیا ہے ؟
کیا آپ نے عورت اور مرد کے بیچ جھگڑے کی سب سے اہم وجہ ‘خرچہ ” جیسے مسلے کو حل کر لیا ؟
کیا پاکستان کے مردوں کو علماء کرام نے عورت کے حقوق پہ مکمل طور پہ تعلیم یافتہ کر دیا، انھیں اسلام میں عورت کے مقام کے حوالے سے ضروری تعلیمات فراہم کر دیں ؟
کیا وقتا فوقتا جمعہ کے خطبات میں یہ موضوع زیر بحث آتا رہا ؟
کیا مسجدوں نے اس حوالے سے اپنا حق ادا کر دیا ؟
کیا منبروں نے مخاطبین کے اذہان کو اس مقام پہ پہنچا دیا کہ اب وہ سب مرد، عورت کو پیر کی جوتی سمجھنا چھوڑ چکے ؟
کیا سکولوں کالجوں میں ‘عورت کی فلاح و بہبود ‘ پہ خاطر خواہ نصاب شامل کیا گیا ؟
کیا تنگ نظر طبقے کو یہ یقین دلا دیا گیا کہ ‘عورت’ واقعی انسان ہی ہے ؟
کیا یہ بل پاس کرنے سے پہلے، متعدد انجیوز نے نوجوانوں میں شعور اجاگر کرنے کےلئے، عورت کی عزت کرنے کے حوالے سے چند ایک سیمینارز ، ورک شاپس اور کانفرنسز منعقد کروائیں ؟
کیا مملکت خدادا کے دانشور، "غیرت مند مردوں کی ابلتی ہوئی غیرت کو جگہ پہ لانے میں کامیاب ہو گئے ؟

اگر یہ سب ہو چکا تب تو ہم حکومت کا شکرانہ مانتے ہیں کہ ہمارے حق میں اچھا فیصلہ کیا. لیکن … اگر جواب نفی میں ہے پھر تو یقین کیجیے یہ بل نہیں، یہ وہ ناگ ہے جو اس لاغر معاشرے کی رگوں میں مزید زہریلا ڈنگ چھوڑنے والا ہے. جسکا علاج بعد میں کبهی شائد ممکن بھی نہ ہو سکے. اور ہم ایسے قانون سے پناہ مانگتے ہیں جو ہمارے اہل و عیال کا رہا سہا مان بھی لے ڈوبے.
اس بل سے دشمنی بلکل نہیں ہے جناب. زرا غور سے پڑهیں. کاوش تو اچهی ہے مگر اس سے پہلے اسکا حق ادا کرنا ہے ورنہ ساری محنت کے ضائع !
کیونکہ سرکار ! بیشک عورت مظلوم ہے مگر مظلوم عورت سے ایسی ہمدردی جو اسکی کل متاع، یعنی بوسیدہ چادر کو ہی جلا کر راکھ کر دے بھلا کس کام کی ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے