میں جب جہاد میں شہادت کی موت مانگتا تھا۔

تم جیش ہو، سپاہ ہو، لشکر ہو، حزب ہو، احرار ہو، طالبان ہو اور یا ان سب کی ماں القاعدہ ہو۔ تم جو بھی ہو، جہاں بھی ہو، جس نام سے بھی لڑ رہے ہو اور جس سے بھی مدد لے رہے ہو، خود سیکڑوں کی تعداد میں مرکر اور دوسروں کو ہزاروں کی تعداد میں مار کر اگر تمھیں یہ گمان ہو کہ تم خدا کی راہ میں جہاد کر رہے ہو تو ذرا ٹھہرو، اور ع
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے.

تمھیں اپنے جہاد کے لیے کسی مولوی یا مفتی سے فتویٰ لینے کی قطعاً کوئی حاجت نہیں۔ بس ذرا سا ایک طائرانہ نظر پچھلے چالیس سالوں کی جہادی تاریخ پر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ تم تاریخ کی جو بھی کتاب پڑھوگے، تمھیں اس حقیقت کا پتا چلے گا کہ تمھاری اس جہاد کی تیاری ستّر کی دہائی میں ہوئی اور جہاد کا باقاعدہ اعلان و آغاز امریکا میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اب امریکی ریاست کوئی خلافتِ عمر فاروقؓ تھوڑی تھی جو امارتِ اسلامی کو چار سُو پھیلانا چاہتی تھی۔ بلکہ امریکا اس جہاد کے ذریعے سرمایہ دار دنیا کے رہنما کے طور پر روسی ساخت کی کمیونزم کو روکنے اور اسے شکست دینے کے لیے پرعزم تھا۔

یہ جہاد امریکا کے ڈالروں، سعودی عرب کے ریالوں اور سادہ لوح افغانوں کے مذہبی عقیدہ کی طاقت سے شروع ہوا۔ اس جہاد کے دوام کے لیے مرحوم ضیاء الحق نے امریکا کے ساتھ مل کر پورے پاکستانی معاشرے کو انتہاپسند جہادی اور بنیاد پرست مسلمان بنا دیا۔ اس وقت کے افغان کیمپوں کے اسکولوں میں سی آئی اے کا وہ نصاب چلتا تھا جس کو امریکا کے ’’نبراسکا یونی ورسٹی‘‘ نے تیار کیا تھا۔ جس میں دو کلاشنکوف جمع دو کلاشنکوف مساوی چار کلاشنکوف ریاضی کے سوالات ہوتے تھے۔ پاکستانی اخباروں کے اداریوں، نامور صحافیوں کی تحریروں، شعلہ بیاں مولویوں کی تقریروں، ریڈیو کے نغموں اور ٹی وی کے ڈراموں کے ذریعے جہادی رومانس کو نئی نسل کی رگ رگ میں اتارا گیا۔

پختون خوا کے درو دیوار جہادی نعروں سے آلودہ اور مسجدوں کے منبر و محراب الجہا الجہاد کے نعروں سے گونج اٹھے تھے۔ یہی وہ دور تھا کہ 1983-84ء کے سالوں میں مَیں شانگلہ (سوات) کے ایک دُور افتادہ گاؤں ’’بر کانا‘‘ میں بھی اس جہاد کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ میرے استادِ محترم (جہاں بھی ہو خدا انھیں خوش رکھے) کا تعلق پنج پیری مکتبۂ فکر سے تھا۔ قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھاتے وقت وہ ہمیشہ تین نکات بہ تکرار میرے دل و دماغ میں راسخ کرنا چاہتے تھے۔ نمبر ایک یہ کہ میں اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھوں اور شرک و بدعت (بہ الفاظِ دیگر اجتہاد) سے دور رہوں۔ نمبر دو، کسی بھی آیتِ کریمہ میں جہاں بھی امکان ہو، مولانا مودودی صاحب کو برا بھلا کہ کر انھیں خارج از اسلام قرار دوں اور نمبر تین یہ کہ میں سراپا جذبۂ جہاد سے سرشار ہوجاؤں۔ میں اپنے استاد سے اتنا متاثر تھا کہ میں اپنے نام ضیاء الدین کے ساتھ پنج پیری لکھنے لگا تھا اور ہر نماز کے بعد دعا کرتا تھاکہ اے خداوند! مجھے توفیق و ہمت دے کہ میں کافروں کے خلاف جہاد میں لڑتے ہوئے شہید ہوجاؤں۔ دوسری طرف میرے والد محترم جواسکول میں معلم ہونے کے ساتھ ساتھ امامِ مسجد بھی تھے، جمعہ کے دن باقاعدگی سے خطبہ دیتے تھے۔ اپنے خطبے کے دوسرے حصے میں وہ عربی زبان میں کافروں کو زبردست قسم کی بد دعائیں دیتے تھے۔ جیسا کہ ’’الہم دمر دیار ہم و خرد بنیانہم و شتط شملہم۔‘‘ اور اس کے بعد وہ ’’والروس وسین و سائرہ دہرین۔‘‘ یعنی روس، چین اور تمام دہریوں کے لیے خصوصی بد دُعا مانگتے تھے۔ بد دُعا کی اس فہرست میں امریکا اور اس کے حواری اتحادیوں کے نام شامل نہیں تھے کیوں کہ ان کی سرپرستی میں تو ان کے لیے ہم جہاد لڑ رہے تھے۔

جنرل ضیاء الحق مرحوم کے علماء و مشائخ کانفرنسوں میں خطابات سے لے کر مساجد کے مولویوں کے خطبات تک نشرو اشاعت کے تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے جہاد کی تبلیغ و ترویج کے لیے وقف تھے۔ یہ اسّی کی وہ دہائی تھی جب جمی کارٹر افغانستان کی آزاد اسلامی ریاست کے دفاع و تحفظ کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رونالڈ ریگن افغان مجاہدین کے کمانڈروں کو وائٹ ہاؤس بلاکر ان کی خصوصی خاطر تواضع کرتے تھے اور اسی دور میں جب مارگریٹ تھیچر مجاہدینِ اسلام کا خون گرمانے کے لیے لنڈی کوتل پہنچتی اور اپنے پورے زورِ خطابت میں مجاہدین سے وعدہ کرتی کہ ’’آزاد دنیا کے دل تمھارے ساتھ ہیں‘‘ تو فضا نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی تھی۔

قصۂ مختصر اس جہاد کے صفِ اوّل کے سپہ سالار جمی کارٹر، رونالڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر تھی۔ ان کا مقامی کماندان امیرالمؤمنین، مردِ مومن، مردِ حق، ضیاء الحق تھے۔ باقی رہے افغان جہادی لیڈر، جن کے نازو نخرے اٹھانے والا اب کوئی نہیں، وہ روز بروز گم نامی کی اتھاہ گھاٹیوں میں معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ تو میرے نادان مسلمان مجاہدو! امریکا کا جہاد آپ اسّی کی دہائی کے آخر میں جیت گئے تھے جس کے نتیجے میں سوویت یونین نہ صرف پسپا ہوا بلکہ ٹوٹ بھی گیا۔ امریکا اپنا جہاد جیت کر افغانستان سے نکل گیا۔ نائن الیون کے بعد دوبارہ آیا تو تمھاری مدد کے بغیر اسامہ بن لادن کو زندہ نگل گیا۔ تم وہی مجاہدین تھے لیکن نہ امارتِ طالبان کو بچاسکے اور نہ ہی اسامہ بن لادن کو۔ میں کوئی طعنہ نہیں دے رہا ہوں لیکن صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمھارا جہاد اب ایک سعیِ لاحاصل ہے۔ تم اب تک افغانستان کے لاکھوں شہریوں اور پاکستان کے پختون خطے میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کو مارچکے ہو۔ تمھارے جہاد کے نتیجے میں کتنے باپ اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھاچکے ہیں، کتنی ماؤں کی گود اُجڑ چکی ہیں اور کتنی جوان عورتوں کے سہاگ لٹ چکے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ تم میں سے اکثر پختون ہیں جو بلا سوچے سمجھے اپنی ہی نسل کشی کر رہے ہیں۔ تم ہزارہ بلوچوں کو بھی عقیدے کے نام پر صفحۂ ہستی سے مٹا رہے ہو۔ آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونی ورسٹی میں معصوم طالب علموں کا بہیمانہ قتل تمھارے ’’عظیم اسلامی معرکوں‘‘ کی درخشندہ مثالیں ہیں۔

میرے گم نام سرفروشو! امریکا کے جہاد میں شامل ہوکر روس کو بھگانے کی منطق تو کچھ نہ کچھ سمجھ میں آ ہی جاتی ہے کیوں کہ ہم تم بہت سادہ لوح ہیں لیکن امریکا کی دشمنی میں جہاد کے نام پر اپنے ہی لوگوں کا قتل میرے جیسوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر تم یہ سب کچھ جہاد کا نام استعمال کرکے جان بوجھ کر کر رہے ہو اور تمھیں پتا ہے کہ ایجنڈا کوئی دوسرا ہے تو پھر لڑتے رہو، مرتے رہو اور مارتے رہو۔ لیکن اگر تمھارے دل میں تھوڑی سی بھی انسانیت کی رمق اور ایمان کا شائبہ موجود ہے تو اپنے کندھے پر لدھے ہوئے بھاری بھرکم راکٹ لانچر کی طرف ایک بار غور سے ضرور دیکھو، شاید یہ وہی راکٹ لانچر ہے جو تمھارے والد کے ہاتھ میں سی آئی اے اپنے جہاد کے لیے تھما چکا تھا، یہ شاید تمھیں میراث میں ملا ہے لیکن وہ جہاد کب کا ختم ہوچکا ہے۔ اس کے مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں، اس کے فوائد امریکا اور اس کے عالمی حواریوں، علاقائی شراکت داروں اور مقامی اڑھتیوں کو اپنے اپنے حصہ کے مطابق مل چکے ہیں۔ اب تمھارے خونی راستوں کی کوئی منزل نہیں۔

روم راہے کہ اورا منزلِ نیست
ازاں تخمِ کہ ریزم حاصلِ نیست

تو اے میرے بھٹکے ہوئے مسافرو! تم خود بھی گھر کا راستہ بھول چکے ہوں اور ہم جیسے ہزاروں کو بھی بے گھر کرچکے ہوں۔ ہم پچھلے ساڑھے تین سالوں سے جلاوطن ہیں۔ میری ماں، ہمارے عزیزو اقارب ہم سے جدائی کے ماہ و سال گن رہے ہیں اور شاید تمھاری ماں اور دیگر پیارے رشتہ دار بھی تمھاری راہ تک رہے ہوں۔ موت بن کر قریہ بہ قریہ، کو بہ کو کیوں پھر رہے ہوں۔ لوٹ آؤ، زندگی بن کر اپنے گھر لوٹ آؤ۔ کیوں کہ خارزار راستوں پر زخم زخم ہونے سے بہتر ہے کہ اپنے گھر، اپنی جنت لوٹ آؤ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے