تحفظ نسواں بل اورمذہبی بیانیہ

تحفظ نسواں بل کا نفاذ پنجاب حکومت نے روک دیا. غالبا مذہبی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے دباو نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر ہی دیا. یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہےکہ ہماری سوچ کے مطابق ویسے بھی خواتین ہوتی کون ہیں جنہیں آزادی سے سانس لینے کا موقع مل سکے. یوں ہماری اسلامی نظریاتی کونسل اور مذہبی تنظیموں نے بالآخر "دین” کو بچا لیا. اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر مذہبی تنظیموں نے تحفظ نسواں کے بل کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ بل اسلام کے خلاف ہے اور اس سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہو گا.مذید برآں اس بل کو اہل مغرب اور ان کی گماشتہ این جی اوز کی سازش قرار دیا.

فہم سے بالاتر ہے کہ چیچہ وطنی یا جھنگ کے کسی چھوٹے سے محلے کے چھوٹے سے گھر میں رہنے والے میاں بیوی کے درمیان طلاق کروا کر اہل مغرب کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ یا پھر پنجاب میں اگر بقول ان حضرات کے طلاقوں کی شرح بڑھے گی تو پھر اس کا فائدہ اہل مغرب کو کیسے ہو گا؟ مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اب زرا تفضیل سے اس بات پر روشنی ڈالنی چاہیے کہ آخر مغرب ہمارے معاشرے میں بے حیائی پھیلا کر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے. آخر کو کوئی منطق یا دلیل تو ہونی چاہیے ہماری اسلامی نظریاتی کونسل اور مذہبی علما کے پاس.اکثر علما نے یہ بھی فرمایا کہ میاں بیوی کو اپنے حقوق کا علم دینی تعلیمات سے ہو سکتا ہے اس لیئے حکومت یقینی بنائے کہ نصاب میں ہر لیول تک دینی تعلیم لازم ہو.

ان صاحبان نے لگتا ہے نصاب کی کتابوں پر نگاہ ڈالنا پسند ہی نہیں کیا وگرنہ انہیں معلوم ہو جاتا کہ ہم تو معاشرتی علوم میں بھی معاشرت کے بجائے دین کی تعلیم ہی پڑھاتے ہیں.جغرافیہ کے مضمون سے سے لیکر سائینس تک بھی دین کی معلومات پر ہی مبنی ہی‍ں.ایک اور تازہ تحقیق جو ان حضرات کی نظروں سے نہیں گزری وہ تمام مسلم ممالک کا خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا بھر کی اقوام میں آخری نمبر پر آنا ہے. ویسے طلاق اور اس بل کا آپس میں کیا تعلق ہے یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے.مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق عورت کو اپنے خاوند سے تشدد کا سامنا کرنے کے باوجود چپ چاپ زندگی بتا دینی چائیے.

اسلامی نظریاتی کونسل والے اگر ان مسائل پر جن کا تعلق سماجی ڈھانچے اور طرز معاشرت کے ساتھ ہے اپنی آرا دینا چاہتے ہیں تو انہیں پھر خود اس کونسل میں ماہرین سماجیات اور ماہرین نفسیات کی بھی مدد لینی چاہیئے. عورت پر تشدد سے اگر بے حیائی پھیلتی ہے یا سماجی ڈھانچہ متاثر ہوتا ہے اور یہ اہل مغرب کی سازش ہے تو پھر علما حضرات ڈالرز اور پاؤنڈز میں ملنے والی خطیر امداد اور بھیک دوارے کوئی روشنی کیوں نہیں ڈالتے؟ آخر کو یہ پیسہ بھی تو انہی سازشی کفاروں اور اہل مغرب سے آ رہا ہے.ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم 15ویں صدی کے عیسائیوں کی مانند پادری کلچر اپنائے بنا بیٹھے ہیں. اس زمانے میں چرچ مضبوط تھی اور پادری عیسائیت کے ٹھیکیدار بن کر معاشروں کو پسماندہ رکھتے ہوئے اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے تھے. پھر اہل مغرب نے چرچ اور پادریوں کی اجارہ داری ختم کی اور آج وہ مذہبی اجارہ داروں کے تسلط سے آزاد ہیں. بدقسمتی سے ہم دین پر عمل تو کرتے نہیں اور اس کے فہم کو سمجھنے کا ٹھیکا بھی ہم نے ایک مخصوص طبقے کو دے رکھا ہے.اب عالم فاضل بنا یہ طبقہ اپنی اجارہ داری مفت میں تو ختم کرنے سے رہا. اس لیئے مذہب کی آڑ میں عورتوں بچوں یا اقلیتوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے.

ہمارا معاشرہ بھی عجیب معاشرہ ہے توہین مذہب کیلئے گلے پھاڑ کر نعرے بھی لگاتا ہے اور جلسے جلوس بھی کرتا ہے لیکن ساتھ بسنے والے ہمسایے یا اس کے بچوں کو بھوک سے مرنے دیتا ہے .بے حسی اور منافقت کی ایک دبیز طے ہے جو معاشرے کے ماتھے پر چپکی پڑی ہے. غیرت کے نام پر قتل کے موضوع کو اجاگر کرنے والی غدار اور بے غیرت کہلاتی ہے البتہ عورتوں کو قتل کرنے والے محب وطن اور غیرت مند کہلاتے ہیں.عورتوں پر تیزاب پھینکنا ہو یا ان کا استحصال اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ایسا تو امریکہ میں بھی ہوتا ہے.یعنی اگر اپنی ظلم و زیادتی کی باری آئے تو دنیا بھر کے معاشروں سے جھوٹے اعداو شمار پیش کر کے اسے جسٹیفای کرنے کی کوشش کی جاتی ہے .خیر فی الحال تو ہماری غیرت بریگیڈ اور دین کے ٹھیکیداروں نے کفار کو شکست فاش دے دی ہے. اب کل کلاں کو میری بیٹی بڑی ہو کر گھر بسائے گی اور اس کا خاوند جو کہ اس کا ہی ہم مزہب ہو گا اس کو پیٹنے کے بعد جب مونچھوں کو تاو دے گا تو یقینا میرے مذہب میرے وطن اورـمعاشرے کا نام پوری دنیا میں روشن ہو گا اور جب جب میری بیٹیوں جیسی بچیاں اپنے ہی معاشرے میں تشدد کا نشانہ بنیں گی تو یقینا یہ اہل مغرب اور کفار کے منہ پر ایک طمانچہ ہو گا.

بڑے انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کی باتیں کرتے پھرتے ہیں یہ اہل مغرب.ہمت ہے تو ہماری ہی بچیوں کو ہمارے ہی ظلم و ستم سے بچا کر تو دکھائیں. بے حیا لوگ ذرا بھی غیرت مند ہوتے تو اب تک شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے کہ اتنا پیسہ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں پر لگا کر بھی ہمیں ہماری اپنی ہی بچیوں پر تشدد کرنے سے روک نہ پائے. اتنی بڑی سازش کو ہم نے ناکام بنایا ہے ہماری بچیوں میں سوچنے اور زندگی گزارنے کا خیال پیدا ہونے لگ گیا تھا انہیں احساس ہونے لگ گیا تھا کہ ہم محض جنسی تسکین پہنچانے یا مرد سے مار پیٹ کھانے کیلئے پیدا نہیں ہوئیں. ہم نے حقوق نسواں کے بل کے نفاذ کو روک کر ثابت کر دیا کہ ہم دنیا کا سب سے مہذب معاشرہ ہیں. اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ ہم نے اہل مغرب کو شکست دی ہے. کبھی ہم اپنے معاشرے میں بسنے والے کم سن بچوں سے مشقت کروا کر "چائلڈ ” لیبر جیسی گھٹیا سازش کو مات دیتے ہیں تو کبھی انہیں جنسی زیادتی کا شکار بنا کر.کبھی ہم اپنے ہی بچوں اور بچیوں کو تعلیم نہ حاصل کرنے دینے پر کفار کے تعلیم کی سازش کو مات دیتے ہیں تو کبھی خود ہی اپنے بچوں کو پولیو ڈراپ نہ پلوا کر اپنے ہی بچوں اور بچیوں کو معذور بنا کر انہیں شکست دیتے ہیں. ان کی بچیاں ہمارے شکنجے میں نہ آ سکیں تو کیا ہم اپنے اپنے گھروں کی چار دیواری میں اپنی ہی بچیوں کو قید کر کے اپنی قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی امریکی جیل میں سـزا کا بدلہ اپنی بچیوں سے لیتے ہیں.

بزدلو امریکیو اور اہل مغرب میں زرا سی بھی ہمت ہے تو ہمیں روک کر دکھائیں. ہم اپنے گھروں میں کام کرنے والی بچیوں تک کو جنسی و جسمانی تشدد تک کا نشانہ بنا کر اہل مغرب کو اخلاقی محاز پر نہ صرف پچھاڑ دیتے ہیں بلکہ انہیں بے حیا اقوام بھی ثابت کر دیتے ہیں. اتنی شکستوں سے دوچار ہونے کے بعد دنیا بھر کو ہمارے سامنے گھٹنے ٹیک کر یہ اقرار کر لینا چائیے تھا کہ یہ ہے باحیا غیرت مند اور مثالی معاشرہ لیکن چونکہ اہل مغرب ڈھیٹ ہیں اور متعصب ہیں اس لیئے اقرار تو کریں گے نہیں.ہم خود ہی حقوق نسواں کے بل پر نفاذ کے عمل کو روکنے پر تمام مسلم امہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتے ہیں کہ کفار کی سازش ناکام گئی. اور اہل مغرب کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ہوتی ہے حیا یہ ہوتی ہے غیرت.البتہ ہمیں ڈالرز اور پاؤنڈز کی بھیک مسلسل دیتے رہیں وگرنہ ہم اپنی بچیوں اور بچوں کو تشددکا نشانہ بنا کر پھر انہیں شکست فاش سے دوچار کر دیں گے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے