ادارہ تعلیم و تحقیق کے چئیرمین اور معروف دانشور و کالم نگار خورشید ندیم نے کہا ہے کہ ایک قومی بیانیے کے بغیر ایکشن پلان کا تصور بے معنی ہے۔ادارہ تعلیم و تحقیق ایک قومی بیانیے کی تشکیل کے ساتھ عوامی شعور کی تبدیلی کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔اس کے لیے مطبوعات کی اشاعت کے ساتھ،تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاکہ سماج میں ایک موثر سماجی تحریک کے لیے افرادی وسائل میسر آ سکیں۔ خورشید ندیم ’اور نیشنل ڈائیلاگ فورم‘ میں ادارے کی رپورٹ پیش کر رہے تھے ۔
اجلاس میں فورم کے بنیادی اراکین نے شرکت کی جن کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں اور معاشرتی طبقات سے تھا۔ ان میں مفتی عبدالقوی مہتمم جامعہ عبیدیہ ملتان،ممتاز دانش ورائر وائس مارشل(ر) شہزاد چوہدری، وزیر اجمل سینئر نائب صدر مسلم لیگ (ق)،ڈاکٹر عامر طاسین ،چیرمین مدرسہ بورڈ،عامر رانا، ڈائریکٹر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز،البصیرہ کے ڈائریکٹر ثاقب اکبر ،کالم نگار وقانون دان آصف محمود،کالم نگار مصدق گھمن،ممتاز صحافی سبوخ سید،ڈاکٹر سعید الہی، چیرمین ہلالِ احمر،دانش ور ارشاد محمود،شاہد گیلانی صدرراولپنڈی گروپس آف کالجز اور معاشرے کے دیگر طبقات کی نمائندہ شخصیا ت نے شرکت کی۔
شرکا نے ادارہ تعلیم و تحقیق کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے تجاویز دیں جن کی روشنی میں اگلے سال کی منصوبہ بندی کی گئی۔سید شاہد گیلانی نے بتا یا کہ سماجیا ت کے حوالے سے ادارے نے جو نصابی کتاب تیار کی ہے،اسے آر سی سی کے تمام تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے گا۔
مفتی عبدالقوی نے اعلان کیا کہ اس کتاب کو سیکڑوں مدارس میں داخلِ نصاب کیا جائے گا۔شرکا کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ سماجی تبدیلی کے لیے ہم خیال اداروں اور تنظیموں میں اشتراکِ عمل کے لیے پروگرام بنایا جائے۔فورم نے ادارہ تعلیم وتحقیق کے کام کو سراہتے ہوئے،اس آگے بڑھانے کے لیے کئی اہم تجاویز بھی پیش کیں۔
شرکا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہب کو جس طرح فساد اور بدامنی کے لیے استعمال کیا گیا،اس کے جواب کے لیے لازم ہے کہ مذہب کی اصل تعلیم عوام اور خواص کے سامنے رکھی جائیں تاکہ مذہب ایک خیر کی قوت بن کر سامنے آئے۔