اصلاح پسند بھی اور فرقہ پرست بھی؟ حسن روحانی کے خیالات نے مجھے حیران کیا اور پر یشان بھی۔ فرمایا: اہلِ تشیع کے دفاع کے لیے،کسی جگہ مداخلت سے گریز نہیں کریں گے۔
ایران کی مذہبی قیادت کا کوئی نمائندہ اگر یہ کہتا تو قابلِ فہم تھا۔ انہوں نے ایران کا آئین بنایا تو اس میں لکھ دیا کہ اثناء عشری فقہ ریاست کا قانون ہوگا۔ اپنے تمام تر دعووں کے باوجود، امر واقعہ یہ ہے کہ ایران کا انقلاب فرقہ وارانہ تعصب سے اٹھ نہیں سکا۔ نعرہ تو ‘لا شرقیہ لا غربیہ… اسلامیہ اسلامیہ‘ کا بلند ہوا لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس انقلاب کے خد و خال مسلکی تھے۔ مشرق وسطیٰ میں اس انقلاب کے بعد شیعہ سنی کی تقسیم نمایاں ہوتی چلی گئی اور آج یہ اپنے عروج پر ہے۔
بلاشبہ یہ معاملہ دو طرفہ تھا۔ بعض سنی ریاستوں نے بھی اس تقسیم کو مزید گہرا کیا۔ دوطرفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایران بہر حال اس کے دو ذمہ داروں میں سے ایک ہے۔ اصلاح پسند غالب آئے تو خیال ہوا کہ اس عہد کی سب غلطیوں کی تلافی ہوگی۔ اصلاح کا مطلب ہی یہی ہے کہ ابھر نے والا منظر پہلے سے مختلف ہو گا۔ روحانی صاحب کے اس بیان نے مگر مایوس کیا۔
مسلم تاریخ میں مصلحین کی ایک روایت ہے۔ جنہوں نے فکری سطح پر یہ کام کیا وہ مسلکی تقسیم سے بلند ہوگئے۔ مثال کے طور پر امام ابو حنیفہؒ۔ وہ خود تو کسی مسلک سے نہیں تھے، ان کے بارے میں بتا یا جا تا ہے کہ انہوں نے ہر جگہ سے کسبِ فیض کیا۔ امام نے تواجتماعی اجتہاد کی روایت قائم کی۔ ان کی تقلید بعد کی بات ہے، جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔ صورت حال یہ ہو گئی کہ لوگ ان کی تقلید کے حق میں روایات بیان کرنے لگے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ روایت سازوں نے کہاں کہاں نقب لگائی۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ دین قرآن وسنت کے یقینی ذرائع سے ہم تک پہنچا۔ اگریہ اخبارِ احاد ( انفرادی روایات) پر منحصر ہوتا تو نہیں معلوم اس امت کا کیا ہوتا۔کل ابو حنیفہؒ کی امامت کے حق میں روایت پیش کی جا رہی تھی اور آج جنرل راحیل شریف کو غزوۂ ہند کی روایت کا تسلسل کہا جا رہا ہے۔ محدثین اگر موضوع اور ضعیف روایات کا دروازہ بند نہ کرتے تو یہاں ایک غلام احمد نہیں، کئی ابنِ مریم ہونے کا دعویٰ کرتے اور لوگ مان بھی لیتے۔ یہ رجال الغیب کے علاوہ ہوتے۔
امام ابنِ تیمیہؒ کو دیکھیے، چو نکہ مصلح تھے اس لیے حنبلی ہونے کے باوجود، بارہا اپنی فقہ کے دائرے سے باہر نکلے۔ شاہ ولی اللہ، جمال الدین افغانی، علامہ اقبال،ابوالکلام آزاد، سید ابو الاعلیٰ مودودی، سعید نورسی۔۔۔۔ کسی مصلح کا نام لیجیے، اسے کسی ایک فقہی دائرے میں قید رکھنا ممکن نہیں۔ نکی کیڈی نے افغانی پر ایک معرکہ آرا کتاب لکھی۔ معلوم ہوا کہ وہ افغانی نہیں، اصفہانی تھے۔ ان کی فقہی وابستگی پر بھی تحقیق ہوئی لیکن آج کسے ان کی مسلکی شناخت سے دلچسپی ہے؟ یہ تو فکری دنیا کا معاملہ ہے، سیاست میں بھی یہ ممکن نہیں۔ صلاح الدین ایوبی، ٹیپو سلطان، قائد اعظم، سب کوئی نہ کوئی فقہ تو رکھتے تھے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ انہیں کسی ایک فقہ یا کسی مسلک کا ترجمان قرار دیا جائے۔ اورنگزیب عالمگیر اگرچہ حنفی تھے لیکن انہوں نے بھی اس کے شورائی مزاج کو زندہ کرنا چاہا، جب علما کے ایک گروہ سے فتاویٰ عالمگیری لکھوائی۔ آج بھی ہم مصر کے آئینی صدر مرسی اور ترکی کے طیب اردوان یا فتح اللہ گولن کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی خیال نہیں آیا کہ ان کا تعلق کس فقہ سے ہے۔
حسن روحانی اگرمصلح بننا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ فرقہ پرستی سے باہر آئیں۔کسی ایک فقہ کا پیرو کار ہونا ایک بات ہے اور فرقہ پرست ہونا دوسری بات۔ ایران نے فلسطینی مظلوموں کی حمایت کی جن کی اکثریت سنی ہے۔ اس سے ایرانی قیادت کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا۔ ان کا احترام بڑھا۔ یہ کہا گیا کہ وہ ظلم کو مذہب یا مسلک کی آنکھ سے نہیں، حق و انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر وہ یہ کہتے کہ وہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائیں گے تو اس سے ان کا قد بڑھتا۔ میں تو مظلومیت کو اہلِ اسلام کے دائرے میں قید رکھنے کے حق میں بھی نہیں ہوں، اسے عالمِ انسانیت کے حوالے سے دیکھنا چاہیے۔
ایران میں اصلاح کے لیے لازم ہے کہ اس کو فرقہ پرستی کی گرفت سے نکالا جائے۔ میں روحانی صاحب کی مجبوری کو سمجھ سکتا ہوں۔ ایک شیعہ اکثریتی ملک میں ، جس کے مسلکی تشخص کو پینتیس سال تک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، وہاں تدریجاً بات آگے بڑھے گی۔ ان کا یہ بیان لیکن ترقی معکوس ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ مسلم دنیا کو اب اس تقسیم سے نکل آنا چاہیے۔ ریاست و سیاست کی صورت گری، میں پہلے بھی لکھ چکا کہ مذہب یا مسلک کی بحث سے ماورا ہو چکی۔ مسلمان ملکوں کو اگر ترقی کرنی ہے تو ان کے لیے درست راستہ وہی ہے جو ان کے لیے علامہ اقبال نے تجویز کیا تھا۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں خود کو منظم اور مضبوط کریں۔ اپنی اجتماعی خودی کو بیدار کریں۔ سادہ الفاظ میں پاکستان کے اہلِ تشیع کو پاکستانی تشخص میں ضم ہو جانا چاہیے اورایرانی سنیوں کو ایرانی تشخص میں۔ یہی کچھ بحرین، یمن، شام اور عراق میں ہو نا چاہیے۔
اگر کسی ایک مسلمان ملک کی قیادت دنیا بھر کے ہم مسلکوں کی حمایت کو اپنی ذمہ داری قرارد ے گی تو یہ عمل ایک جگہ رکنے والا نہیں۔ پھر ایرانی سنیوں کی مدد کا اعلان کسی اور طرف سے ہو سکتا ہے، جن کے بنیادی حقوق کا سوال اس سے پہلے اٹھتا رہا ہے۔ تہران میں دو ملین سنی بستے ہیں لیکن انہیںمسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ اگر سنی ممالک ان کے کے دفاع کے لیے مداخلت کا اصول اپنا لیں تو پھر روحانی صاحب کے خیالات کیا ہوں گے؟ کیا ایران کے لیے یہ قابلِ قبول ہوگا؟
روحانی صاحب کی جن اصلاحات کی تعریف ہو رہی ہے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے ایران کو تنہائی سی نکالا۔ وہ دنیا سے پچھڑ چکا تھا، اسے انہوں نے ایک بار پھر عالمی قافلے میں شامل کر دیا۔ بلاشبہ یہ ایک اصلاحی قدم ہے جس میں ایران کا بھلا ہے۔ اس سے زیادہ ایران کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے امتِ مسلمہ کے قافلے کا حصہ بنا یا جا ئے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے اہلِ تشیع کو یہ درس دیں کہ وہ اس اجتماعیت کا حصہ بن کر رہیں جہاں وہ آباد ہیں۔ ان کا یہ رویہ امریکہ میں اور پاکستان یا سعودی عرب میں بھی یہی ہو۔ یہی اہلِ تشیع کے حق میں ہے۔ یہی بات ایران میں بھی اصلاحات کو آگے بڑھائے گی۔
روحانی صاحب پاکستان آنے والے ہیں۔ مجھے ان کے اس دورے سے بڑی توقعات ہیں۔ میرا احساس ہے کہ مذہبی شدت پسندوں کے بجائے اگر ایران کی قیادت ان جیسے اصلاح پسند کے ہاتھ میں ہوگی تو اس سے پاکستان اور ایران میں قربت بڑھے گی۔ یہ پیش رفت ایران اور سعودی تعلقات کے لیے بھی خوش آئند ہے۔کاش یہاں آنے سے پہلے وہ یہ بیان نہ دیتے۔ پاکستان کے سنی ان کے بارے میں ایک مثبت رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے خود کو شیعوں تک محدود کر کے، دوسروں کو مایوس کیا ہے۔ آج کے مصلحین کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مسلم قوم کو صدیوں پرانی تاریخ کی اسیری سے رہائی دلائیں۔ تاریخ کی قیدسے رہا ہونے کے بعد ہی وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس امت کے فکری مصلح ہوں یا سیاسی، انہوں نے خود کو مسلکی تقسیم سے بلند رکھا ہے۔
نیا ایران جتنا غیر مسلکی ہوگا، اتنا ہی ایران اور مسلم دنیا کے لیے خیر کا باعث بنے گا۔ یہی بات سعودی عرب، پاکستان اور دوسرے ممالک پر بھی صادق آتی ہے۔