تقدیس مشرق؟؟

جب گھر میں داخل ہوا تو نقشہ کچھ ایسا تھا۔ ایک چھوٹا سا لوہے کا گیٹ۔ محدود سا صحن کہ تین چارپائیاں ہی آ سکیں۔ صحن میں اینٹیں لگی ہوئی تھیں۔ جا بجا اینٹیں اکھڑ رہی تھیں۔ صحن کے بعد ایک برآمدہ آیا۔ برآمدہ شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا۔ شاید ایک چارپائی جتنا۔ پلستر جگہ جگہ اتر گیا تھا، سیلن بھی چڑھ آئی تھی، سیلن ذدگی نہ صرف بدصورت ہوتی ہے بلکہ بدبودار بھی۔ لہذا برآمدہ چھوٹا، بدصورت اور بدبودار تھا۔ پھر کمرہ آیا۔

صحن اور برآمدے کی مانند کمرہ بھی محدود۔ گھٹن تھی اور سیلن۔ اللہ اکبر اور یارسول اللہ کے دو نمایاں چارٹ سامنے والی دیوار پہ آویزاں تھے۔ ان دو چارٹ کے علاوہ دیواریں سیلن اور پنسل سے لگی لکیروں سے مزین تھیں۔ چرس اور دیسی شراب کی بدبو اس کمرے کا حصہ محسوس ہوئی۔
فرش پہ بوسیدہ قالین بچھا ہوا تھا۔ چھت پہ سفید چونے کے نشان باقی تھے اور ایک گندہ سا پنکھا۔ فرشی قالین کا ایک کونا دانستہ لپیٹا گیا تھا جہاں غسل خانے کا دروازہ تھا۔ معلوم نہیں غسل خانے کی کیا حالت تھی۔

کمرے میں ایک ٹی وی تھا۔ ایک سی ڈی پلیئر بھی رکھا ہوا تھا۔ قالین پہ ایک فوم والا گدا بھی تھا۔ اسی گدے پہ یہ خاتون اپنے گاہکوں سے ملتی ہے۔ خاتون کا سن کوئی پینتیس کا ہے۔ ایک پانچ سالہ بیٹی بھی کمرے میں تھی اور بوڑھی ملازمہ۔ جب کوئی گاہک کمرے میں آتا ہے تو یہ ملازمہ روتی ہوئی بچی کو باہر لے جاتی ہے۔ خاتون کی شکل و صورت واجبی اور کپڑے بھڑکیلے ہیں۔ واہیات سا میک اپ اور گفتگو۔

خاتون نے 8 تک تعلیم حاصل کی اور ناظرہ قرآن پڑھ رکھا ہے۔ 19 کی تھی تو ایک جوان سے عشق کیا۔ گھر والے راضی نہ ہوئے تو بھاگ کر شادی کر لی۔ جوان نے مجبوریاں بتائیں اور شادی ظاہر نہ ہونے دی۔ ایک بچی بھی پیدا ہو گئی۔ پندرہ سو ماہانہ خرچ دیتا اور آٹھ سو گھر کا کرایہ۔ لڑائیاں شروع ہوئی تو جوان مار پیٹ پہ اتر آیا۔ بچی بیمار ہوئی تو علاج کیلئے پیسے نہیں ملے، بار بار مانگنے پہ جوان نے مجبوری بیان کی۔ اس عورت نے مالک مکان سے ادھار مانگا تو اس نے کہا کہ ادھار کیوں لیتی ہو۔ یہ لو تین ہزار اور بھی کا علاج کروا لو۔ جب بچی ٹھیک ہوئی تو مالک مکان نے تین ہزار کے عوض تین مرتبہ جنسی تسکین کا تقاضہ کیا۔

عورت کو نئی راہ مل گئی۔ معاشی معزوریوں کا علاج جسم فروشی۔ عورت اب ماہانہ 25 سے 30 ہزار کماتی ہے۔ جوان کو جب معلوم پڑا تو بات شدید مار پیٹ تک چلی گئی۔ جوان نے آہستہ آہستہ عورت سے پیسے لینے شروع کر دیے۔ عورت نے سوچا کہ جوان نہ مجھے زمانے کے سامنے بیوی مانتا ہے، نہ خرچہ دیتا ہے، مزید براں تشدد کا نشانہ بھی بناتا ہے، اور جنسی تسکین مفت میں۔ عورت نے جوان کو 50 ہزار دیے اور طلاق لے لی۔ عورت نے ایک بار پھر اپنے ماں باپ سے رابطہ کیا، انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ عورت اب ہمارے شہر میں رہتی ہے۔

آخر گھر والے بچوں کی شادی انکی مرضی سے کیوں نہیں کرتے؟ اگر بچوں کی مرضی مناسب نہیں تو بچوں کو سمجھا کیوں نہیں پاتے؟ آخر یہ معاملہ اتنی تمدنی ترقی کے باوجود سلجھ کیوں نہیں رہا؟

آخر مرد اور عورت شادی سے پہلے معاملات طے کیوں نہیں کرتے؟؟؟ شادی کے بعد کی لڑائیاں اسی اندھے تعلقات کا ہی نتیجہ تو ہیں۔ ایک طرف معاشی مجبوریاں اور دوسری جانب بغیر کچھ طے کیے اندھی شادیاں؟ لڑکی شادی سے قبل جوان سے پوچھ لیتی کہ آیا مجھے سماج میں اپنی بیوی تسلیم کرو گے؟ مجھے ماہانہ کتنا خرچ دے سکتے ہو؟ بچے کتنے ہونگے اور اگر ہونگے تو ان کا نان نفقہ کیا ملے گا؟ جن امور پہ آپسی لڑائیاں اور مار پیٹ ہوئی وہ بھاگ کر شادی کرنے سے قبل موضوع گفتگو کیوں نہ بنائے گئے؟

آخر ریاست ہم سے بلاواسطہ اور بلواسطہ ٹیکس کس مد میں لیتی ہے؟ ریاست اپنے فرائض کب ادا کریگی؟ اگر اس عورت کو خوراک، لباس اور رہائش مفت مل جاتی اور بچی کو علاج و تعلیم مفت مل جاتی تو شاید میں یہ تحریر نہ لکھ رہا ہوتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے